لکھاری وکیل ہیں۔
لکھاری وکیل ہیں۔

سپریم کورٹ نے بوتل بند پانی فراہم کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے بے ضابطہ انداز میں انتہائی زیادہ پانی نکالنے کے بارے میں از خود نوٹس کی کارروائی شروع کردی ہے۔ انصاف پسندی سے کام لیں تو عدالت واقعی ہمارے پانی کے ذخائر بچانے کی کوششوں میں نیک نیتی سے مصروف ہے مگر چوں کہ ججز پالیسی مسائل سے نمٹنے کے لیے مناسب اہلیت کے حامل نہیں سمجھے جاتے، اس لیے اب تک توجہ صرف قلیل مدتی حل پر رہی ہے۔ اس مسئلے کے ایک مناسب حل کے لیے ہمیں پہلے نظام میں موجود خامیوں کو درست کرنا ہوگا۔

زیرِ زمین پانی ایک نایاب وسیلہ ہے اور جب بھی ایک ریاست کے سامنے کسی چیز کی نایابی کا مسئلہ آئے، تو اسے وسیلے کی تقسیم کا مرحلہ شروع کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب محدود وسائل پر بہت سارے لوگ دعوے دار ہوں، تو معاشرے کو طریقہ کار وضع کرنا چاہیے تاکہ دعوے داروں میں محدود وسائل کی تقسیم کی جائے اور یہ فیصلہ کیا جائے کہ کس دعوے دار کو ترجیح حاصل ہے۔

حقوقِ ملکیت کا قانون یہی کام کرتا ہے۔ یہ ہمیں محدود وسائل مختص کرنے میں مدد دیتا ہے اور پھر ایسا فریم ورک فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے یہ وسائل ابتدائی طور پر مختص کیے جانے کے بعد لوگوں کو منتقل کیے جاسکیں۔

زیرِ زمین پانی نکالنے کو ضوابط کے تحت لانے میں ہماری انتظامی مشکلات یہاں سے شروع ہوتی ہیں کیوں کہ ہم زیرِ زمین پانی کے حق کو شروع میں مختص کبھی بھی نہیں کر پائے ہیں۔ اگر زیرِ زمین پانی کے حقوقِ ملکیت کا واضح طور پر تعین نہیں کیا جائے گا تو اسے مؤثر طور پر منضبط بھی نہیں کیا جاسکے گا۔

پڑھیے: کیا پانی کی خراب تقسیم کے پیچھے بھی ہمارا ’دشمن‘ ہے؟

پنجاب کے معاملے پر غور کریں جہاں زیرِ زمین پانی پر کئی مختلف اداروں کا کنٹرول ہے اور ان کے دائرہ کار کی حدود بھی ایک دوسرے کی حدود میں تجاوز کرتی رہتی ہیں۔ واپڈا ایکٹ 1958 کی شق 11 (آئی) (اے) کے مطابق واپڈا کو ’ایک صوبے کے کسی بھی خطے میں زیرِ زمین پانی کے وسائل پر کنٹرول حاصل ہے۔‘

یہی متن آپ کو من و عن پنجاب اریگیشن اینڈ ڈرینیج اتھارٹی ایکٹ 1997 کی شق 8 میں ملے گا جو اس اتھارٹی کو ’صوبے کے کسی بھی خطے میں زیرِ زمین پانی کے وسائل پر کنٹرول‘ دیتا ہے۔ چنانچہ ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے جس میں پنجاب کا زیرِ زمین پانی 2 مختلف اداروں کے زیرِ انتظام ہے جس میں سے ایک ادارہ صوبائی اور ایک وفاقی ہے۔

مگر یہی نہیں۔ اریگیشن اینڈ ڈرینج ایکٹ 1873 کی شق 62 اے کے تحت صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ’زیرِ زمین پانی کے ذخیروں کو محفوظ رکھنے کے لیے زیرِ زمین پانی کی مناسب انتظام کاری کرے۔‘ یہ تیسرا قانون ہے جو زیرِ زمین پانی کو محفوظ، منضبط، اور منظم کرنے کا اختیار ایک اور ادارے کو دیتا ہے۔ اس کے علاوہ شہروں میں جہاں پنجاب ڈیولپمنٹ آف اسٹیز ایکٹ 1976 یا ایل ڈی اے ایکٹ 1975 کا اطلاق ہوتا ہے، وہاں ہر شہر کی متعلقہ اتھارٹی کے پاس اپنے علاقے میں ’زیرِ زمین پانی کے وسائل کے استعمال کا بلا شرکتِ غیرے حق حاصل ہے۔‘ اس کے آگے پھر سوال اٹھتا ہے کہ یہ اتھارٹیز کس طرح مقامی حکومتوں کے ساتھ ایسے ماحول میں کام کرتی ہیں جہاں انہیں بھی قانون کے تحت وہی ذمہ داریاں اور اختیارات حاصل ہیں؟

ہم اسے باریک بینی سے دیکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان قوانین کا اطلاق مختلف تناظر میں ہوتا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے ہم آہنگ رکھتے ہوئے ان کی تشریح کرنا ممکن ہے۔ مگر وہ وسیع تر نکتہ چھپنا نہیں چاہیے جو یہاں اٹھایا جا رہا ہے، یعنی ہمارے پاس زیرِ زمین پانی کے حقوقِ ملکیت مبہم ہیں، جب تک اس کی قانون سازی کے ذریعے صراحت نہیں کی جائے گی، تب تک ہم زیرِ زمین پانی کی مؤثر انتظام کاری کی جانب نہیں بڑھ سکتے اور عدالتوں کے ذریعے کسی پالیسی حل کا نفاذ ہمیں صرف عارضی ریلیف ہی فراہم کرے گا، چاہے نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اور زیرِ زمین پانی کو محفوظ رکھنے کے کوئی بھی اقدام محدود فائدے کے حامل ہی ہوں گے۔

ہاں جہاں عدالتیں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، وہ قانونی تبدیلیاں ہوجانے کے بعد حقوقِ ملکیت کے قانون اور استعمال کنندگان کے حق کے متعلق قانونی تشریحات تیار کرنا ہے۔ مثال کے طور پر ایزمینٹس ایکٹ 1882 کی شق 7 (جی) کے تحت اب بھی زمین کے ہر مالک کو اپنی زمین کے نیچے موجود ’تمام پانی جمع کرنے‘ کا حق حاصل ہے۔ یہ رومن قانون کے ایک قدیم تصور پر مبنی ہے جس کے مطابق زمین کے مالک کو اس زمین کے اوپر اور نیچے لاانتہا گہرائی اور اونچائی تک حقِ ملکیت حاصل ہوتا ہے۔ اب ہوائی جہازوں کے دور میں عدالتیں یہ قرار دے سکتی ہیں کہ زمین کے مالک کا اپنی زمین کے اوپر فضائی حدود پر حق صرف معقول حد تک ہی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان کس طرح قیمتی پانی ضائع کرتا ہے

مگر زیرِ زمین وسائل کے استعمال اور ملکیت سے متعلق تبدیلیاں واقع نہیں ہوئی ہیں، کم از کم ہماری قانونی تشریحات میں تو نہیں۔ زیرِ زمین پانی اب بھی ’جس نے پایا وہی مالک‘ کے ضابطے پر ہے جس کے مطابق زیرِ زمین ذخیرے سے جو بھی نکلے، وہ نکالنے والے کی ملکیت ہے۔ چنانچہ حد سے زیادہ پانی نکالنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ متبادل قانونی ضوابط میں معقول استعمال کا نظریہ ہے جسے میٹرنگ کے نظام کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ضوابط عدلیہ تب بنا سکتی ہے جب نئے قانونی فریم ورک کے تحت مقدمات دائر کیے جائیں۔

ایسی ہی ایک کوشش سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی بنام نیسلے ملک پیک کے مقدمے میں کی گئی تھی جہاں عدلیہ نے قرار دیا کہ زیرِ زمین پانی عوامی مفاد کے لیے ریاست کے پاس تھا مگر اس مقدمے میں عدلیہ کی توجہ میں ایزمینٹس ایکٹ کبھی بھی نہیں لایا گیا۔ چنانچہ مزید وضاحت و صراحت کی ضرورت ہے اور اسے اسمبلیوں سے آنا ہوگا۔

یہ وہ ایک شعبہ ہے جس میں نئی حکومت اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کو کام میں لاسکتی ہے۔


انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 24 ستمبر 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Wadda Taya Oct 03, 2018 11:59am
well written.
Talha Oct 03, 2018 04:57pm
Paani Allah kiee naimat hai....hamein manage achiee tarah karna chahyeh keh paani zaiya na ho.....