اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے خلاف سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی درخواست نمٹادی۔

واضح رہے کہ 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد 20 اپریل کو سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل دی گئی جے آئی ٹی نے راؤ انوار احمد کو جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود اور 3 دیگر نوجوانوں کو جعلی انکاؤنٹر میں قتل کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

سپریم کورٹ نے 21 مارچ کو کیس میں نئی ’جے آئی ٹی‘ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے ملیر راؤ انوار کی نقیب اللہ محسود قتل کیس میں جے آئی ٹی کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔

خیال رہے کہ راؤانوارکے وکیل نے جے آئی ٹی کی ساخت کو چیلنج کیا تھا۔

راﺅ انوار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ‘میں درخواست واپس لینا چاہتا ہوں’۔

عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر معاملہ نمٹا دیا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب قتل کیس:’جے آئی ٹی‘ نے راؤ انوار کو ذمہ دار ٹھہرا دیا، ذرائع

سپریم کورٹ کی ہدایت پر جے آئی ٹی بننے کے بعد واقعے کی تحقیقات کرنے والے ایس پی انویسٹی گیشن عابد قائمخانی کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد جے آئی ٹی کی منظوری سے ایس ایس پی سینٹرل ڈاکٹر محمد رضوان احمد کو واقعے کے تین مقدمے کا تحقیقاتی افسر مقرر کیا گیا تھا۔

نقیب اللہ محسود کا قتل

واضح رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو رواں سال 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جھنگوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ کا قتل: 13 مفرور ملزمان کی گرفتاری کیلئے پولیس کی نئی ٹیمیں تشکیل

ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔

نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد ملک بھر میں محسود قبائل کی جانب سے مظاہروں کا آغاز کردیا گیا، جس میں مظاہرین کا کہنا تھا سابق ایس ایس پی کا بیان متنازع ہے کیونکہ نقیب اللہ محسود ماڈل بننے کا خواہشمند تھا اور اس کا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہیں تھا۔

19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کا از خود نوٹس لے لیا۔

23 جنوری کو نقیب اللہ محسود کے والد کی مدعیت میں سچل تھانے میں قتل کا مقدمہ درج کیا گیا جس میں راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو نامزد کیا گیا۔

مقدمے میں نقیب کے والد نے موقف اپنایا کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار 8 سے 9 سادہ لباس اہلکاروں کی مدد سے ان کے بیٹے کو لے گئے تھے۔

کراچی میں سہراب گوٹھ پر لگائے گئے احتجاجی کیمپ کے دورے کے موقع پر عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ تفتیشی ٹیم نے 14 گھنٹوں میں ثابت کیا کہ مقابلہ جعلی تھا اور نقیب اللہ بے گناہ تھا۔

بعد ازاں راؤ انوار اور واقعے کہ ذمہ دار دیگر پولیس افسران و اہلکار مفرور ہوگئے تھے۔

آخر کار 21 مارچ 2018 کو سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور انہیں از خود نوٹس کی سماعت کے بعد گرفتار کرلیا گیا تھا۔

سابق ایس ایس پی ملیر کو سپریم کورٹ کے عقبی دروازے سے عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ انہوں نے اپنے چہرے کو ماسک ڈھانپ رکھا تھا، راؤ انوار کی پیشی کے موقع پر سپریم کورٹ اور اس کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے جہاں اسلام آباد پولیس سمیت سندھ پولیس کی بھی بھاری نفری تعینات تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں