اسلام آباد: آئندہ ماہ سے شروع ہونے والے ربیع سیزن میں 50 فیصد پانی کی کمی کے امکان کے باعث پارلیمانی پینل کو اس بات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کو براہ راست وزیر اعظم کے نگرانی میں لانے پر غور کیا جارہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شمیم آفریدی کی سربراہی میں پانی کے وسائل پر قائم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے 1991 سے پانی کی تقسیم پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ ایک نیا معاہدہ کیا جائے اور 1991 سے دوسرے صوبوں کے لیے استعمال ہونے والے ان کے پانی کا مالی معاوضہ دیا جائے۔

اس موقع پر کمیٹی نے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز کے لیے فنڈ مہم پر تحفظات کا اظہار کیا اور کالا باغ ڈیم کے معاملے پر کہا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ایک متنازع منصوبہ ہے اور قوم کو تقسیم کرتا ہے اسے بلاوجہ گھسیٹا جارہا ہے۔

پانی کی کمی کے حوالے سے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے وائس چیئرمین راقب خان کا کہنا تھا کہ ربیع سیشن کے لیے پانی کی دستیابی کو حتمی شکل دینے کے لیے ادارے کی تکنیکی کمیٹی منگل (آج) ملاقات کرے گی، لیکن ابتدائی اندازے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ 50 فیصد تک پانی کی کمی ہوسکتی ہے۔

سندھ کے سینیٹر مظفر شاہ نے کہا کہ یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے کہ کسانوں نے خریف سیزن میں 35 فیصد سے زائد پانی کی کمی کا سامنا کیا اور اب آنے والے ربیع سیزن میں بھی انہیں بدتر صورتحال دیکھنی پڑے گی۔

مزید پڑھیں: مشترکہ مفادات کونسل: سندھ، بلوچستان میں پانی کا بحران ختم کرنے پر آمادگی

1991 کے پانی کے معاہدے پر بطور وزیر اعلیٰ دستخط کرنے والے مظفر شاہ نے اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا کہ ماحولیاتی ضروریات کے پیش نظر کوٹری سے پانی کے بہاؤ کو کم کرنے سے متعلق مطالعہ 27 سال بعد بھی مکمل نہیں کیا جاسکا۔

انہوں نے کہا کہ 1991 کے معاہدے میں اس بات کا مطالعہ کیا گیا تھا کہ یہ غلط تاثر دیا گیا کہ پانی کی بہت زیادہ مقدار سمندر میں گر رہی ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے ہدایت کی گئی کہ ارسا کی تکنیکی اور مشاورتی کمیٹی کو سینیٹ پینل میں وقت دیا جائے تاکہ کسانوں کو فصل کے بونے سے متعلق مشورہ دیا جاسکے۔

اجلاس کے دوران پینل کو بتایا گیا کہ خریف سیزن کے دوران پنجاب کو 20 فیصد، سندھ کو 17 فیصد، بلوچستان کو 44 فیصد اور خیبر پختونخوا کو 33 فیصد جبکہ کل 21 فیصد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑا۔

بلوچستان کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے الزام لگایا کہ پانی کا معاہدہ اصل ڈیٹا کی بنیاد پر نہیں تھا اور ان کے صوبے کو اس معاہدے کے عمل درآمد پر بھی سخت تحفظات تھے۔

انہوں نے کہا کہ جس سال پانی کا معاہدہ ہوا تھا 105 ایم اے ایف واٹر سسٹم میں موجود تھا جبکہ ڈیم کی جلد تعمیر کی وجہ سے 114 ایم اے ایف کی بنیاد مختص کی گئی تھی۔

اجلاس کے دوران چیئرمین واپڈا نے کہا کہ انہوں نے تجویز دی ہے کہ واپڈا کو وزیر اعظم کی زیر نگرانی لایا جائے اور پارلیمنٹ کے ذریعے پاکستان کے عوام کو جواب دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا پانی کی خراب تقسیم کے پیچھے بھی ہمارا ’دشمن‘ ہے؟

انہوں نے کہا کہ سابق صدر ایوب خان کا معمول تھا کہ وہ صبح میں واپڈا چیئرمین اور شام میں تربیلا ڈیم منصوبے کے ڈائریکٹر کو طلب کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ کچی کینال 2008 میں مکمل کرلیا گیا تھا لیکن اس کا 72 ہزار کیوسک پانی کبھی بنجر زمین کو نہیں پہنچا کیونکہ بلوچستان حکومت نے نہ ہی کبھی آبپاشی کا نظام تیار کیا اور نہ ہی واپڈا کو کرتھار اور پٹ فیڈر کو کچی کینال سے منسلک کرنے کی اجازت دی، جس کی وجہ سے صرف 10 ہزار کیوسک پانی تقسیم ہوا اور کچی کینال کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

اس موقع پر کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے معاملے پر بات چیت تنازع پیدا کر رہی ہے، لہٰذا اس معاملے کو ختم ہونا چاہیے کیونکہ اگر یہ ختم نہیں ہوا تو دیامر بھاشا ڈیم تعمیر نہیں ہوسکے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں