وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بجلی کے بلوں کی مکمل وصولی یقینی بنانے اور لائن لاسز میں کمی لانے کی ہدایت کرتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ ملتوی کردیا۔

اسلام آباد میں میں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کی زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جہاں توانائی کے وزیر عمر ایوب نے کابینہ کو اس معاملے پر بریفنگ دی۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے نیپرا اور توانائی ڈویژن کو آئندہ 5 سال کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کرنے کی ہدایت کی۔

اجلاس میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق فیصلہ بھی آئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:متوسط طبقے کیلئے گیس کی قیمتوں میں 10 سے 20 فیصد تک اضافہ

خیال رہے کہ 30 اگست کو نو تشکیل شدہ ای سی سی اپنے پہلے اجلاس میں کوئی بڑا فیصلہ نہ کر سکی تھی البتہ اس کی توجہ کھاد بنانے والی کمپنیوں کے معاملات اور توانائی کے شعبے میں خسارے کی بنیادی وجوہات پر مرکوز رہی تھی۔

وزیر خزانہ اسد عمر کے سربراہی میں ای سی سی کے پہلے اجلاس میں صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی 2 ماہ سے زیر التوا سمری کو بھی مؤخر کردیا گیا تھا۔

اجلاس میں وزارت توانائی کی جانب سے توانائی کے شعبے کے لیے ایک سو 70 ارب روپے کے بیل آؤٹ پیکج کی درخواست کی گئی تھی جس کا گردشی خسارہ ایک کھرب ایک سو 78 ارب تک جا پہنچا ہے۔

اجلاس می اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ نادہندگان کے لیے قبل از وقت ادائیگی کے میٹرز لگائے جائیں اور جو علاقے سب سے زیادہ خسارے میں ہیں وہاں بھی اس پر عمل درآمد کیا جائے۔

مزید پڑھیں:ای سی سی کا پہلا اجلاس، بجلی کے نادہندگان کیلئے پری پیڈ میٹرز لگانے کی تجویز

بعد ازاں 17 ستمبر کو وفاقی وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان نے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے صارفین کے لیے 10 سے 20 فیصد گیس کے نرخوں میں اضافے کا اعلان کردیا۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ جب 2013 مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو 2 گیس کمپنیاں سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) منافع میں چل رہی تھیں لیکن جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو یہ کمپنیاں ایک سو 52 ارب وپے خسارے میں ہیں، لہٰذا ہمارے لیے یہ مشکل فیصلہ تھا کہ جو ادارے خسارے میں چل رہے ہیں انہیں درست کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں گیس نیٹ ورک سسٹم پر کل آبادی کا 23 فیصد حصہ ہے جبکہ 60 فیصد ایل پی جی اور دیگر ذرائع پر ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں