کوئی بھی اس وقت تک منزل تک پہنچ ہی نہیں سکتا جب تک وہاں پہنچنے کی لگن اور دلچسپی کا عنصر نہ ہو، پھر چاہے منزل کی جانب جاتا راستہ آسان ہو یا بہت مشکل۔ لیکن اگر کوئی منزل مقصود تک پہنچنے کی چاہ رکھتا ہو تو سفر کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو وہ آسان بن ہی جاتا ہے اور راستہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو بالآخر کٹ ہی جاتا ہے۔

میٹرک، انٹر، گریجویشن اور ماسٹرز تک تو ایک طالبِ علم کورس کے مطابق پڑھ کر یا کلاس میں لیکچر لے کر پرچے دے دیتا ہے اور پاس بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن اصل سفر شروع ہوتا ہے اس کے بعد۔ ہم بات کررہے ہیں آگے کی، یعنی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی، جس کی سند حاصل کرنے کے لیے بہت سی مشکلات میں سے ایک مشکل مقالہ تحریر کرنا ہوتا ہے جو بلاشبہ محنت اور وقت طلب کام ہے۔

ہایئر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی پالیسی کے مطابق ایم فل کی سند کے لیے 2 سال اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کے لیے 7 سال درکار ہوتے ہیں، جس میں سب سے اہم کام مقالہ کی تحریر ہے۔

میں نے جب ماسٹرز کے بعد اُس وقت کے قانون ’ایم فل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی‘ کرنے کی ٹھانی تو یہ اندازہ ضرور تھا کہ آنے والے وقت میں مختلف رکاوٹیں اور مشکلات میرے استقبال کو تیار ہوں گی، لیکن یونیورسٹی میں داخلے کے فوری بعد ہی ایسا ہوجائے گا، اس کا بہرحال مجھے اندازہ نہیں تھا، لیکن چونکہ تحقیق کے کام کی ٹھان لی تھی تو ابتدائی پریشانیوں کے باوجود میرے پیر ڈگمگانے کے باوجود اپنی جگہ سے ہلے نہیں۔

پڑھیے: یونیورسٹی اساتذہ کی ترقیوں اور تقرریوں کا ’کھیل‘

جوں ہی اس سفر کا آغاز ہوا تو دل جوئی سے اپنے مقالے سے متعلق مواد اکٹھا کرنا شروع کیا جو مقالہ لکھنے کا پہلا بنیادی اصول ہوتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے میں نے تحقیق شروع کی تو مجھ پر یہ آشکار ہوا کہ پاکستان میں میرے موضوع ’آن لائن جرنلزم‘ سے متعلق بہت کم کام ہوا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کوئی کام ہوا ہی نہیں، تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ اب اس مشکل سے نکلنے کے لیے غیر ملکی ویب سائٹس، کتابیں اور آن لائن جرنلزم پر کی جانے والی تحقیقوں اور ریسرچ آرٹیکلز کا بغور جائزہ لینا شروع کردیا اور یوں باقاعدہ اس سفر کا آغاز ہوگیا اور ساتھ ساتھ دُکھ کا احساس بھی ہوا کہ ہم ٹیکنالوجی میں ابھی تک بہت پیچھے ہیں، دنیا آن لائن میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو کھنگال چکی ہے جبکہ ہم ابھی پہلی ہی منزل کو ٹھیک طرح سے پار نہیں کرسکے۔

ایم فل کا سلسلہ آگے بڑھا تو کچھ عرصے بعد یہ معلوم ہوا کہ پی ایچ ڈی کی طالب علم ہوتے ہوئے بھی دنیا کے بہترین ریسرچ جرنلز اور آرٹیکلز تک رسائی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں، حالانکہ یہ سب تحقیقی مواد کے لیے بہت ضروری ہے۔ تاہم یہ مشکل بھی خود ہی حل کرنا پڑی اور جیسے تیسے ان مقالوں اور ریسرچ جرنلز تک اپنی مدد آپ کے تحت رسائی حاصل کی۔

بلاشبہ اس سفر میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جن میں سرِفہرست جامعہ کا سست روی کا شکار ’سسٹم‘ رہا جو ہر گھڑی ناامیدی سے دوچار کرتا رہا۔ کچھ ماہ قبل تھوڑے عرصے کے لیے شعبہءِ پی ایچ ڈی کا حال یہ ہوچکا تھا کہ اگر صبح ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا جاتا ہے تو شام کو منسوخ کردیا جاتا اور شام کو جاری ہونے والا نوٹیفیکیشن اگلے دن تبدیل ہوجاتا۔ مسلسل اس غیر سنجیدگی کو دیکھ کر خیال آتا کہ دنیا جس شعبے پر سب سے زیادہ محنت کررہی ہے، اسی شعبے کو ہمارے یہاں مذاق بناکر رکھ دیا گیا ہے، اور یہی وہ رویہ تھا جس کے سبب اکثر ذہن میں یہ خیال آتا کہ اس جھنجھٹ میں پڑنے سے بہتر ہے کہ یہ کام ہی چھوڑ دیا جائے، کم از کم زندگی تو سکون میں آجائے۔

بھلا ایسے میں کوئی بھی طالب علم کس طرح اپنے مقالے کو تکمیل تک پہنچتا ہوا تصور کرسکتا ہے۔ جب طالبِ علم دل جوئی کے ساتھ کام کرنا چاہ رہا ہو لیکن بلاوجہ کی رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہوں تو محض ناامیدی ہی حصے میں آتی ہے اور کچھ نہیں، جو ملنے والے 7 سالوں کو 10، 12 اور 14 سال بھی بنا دیتی ہے۔

پڑھیے: بجٹ میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کا شعبہ حکومتی ترجیحات سے محروم

لیکن اس قدر مشکل حالات کے کچھ ہی عرصے بعد مجھ سمیت بہت سارے طالب علموں کے لیے اچھی خبر یہ تھی کہ اس حوالے سے تمام ہی اصول واضح کردیے گئے جس کے بعد سکُھ کا سانس لیا اور اپنے سفر کا ایک بار پھر آغاز کیا۔

شعبہ کی غلطیوں کی وجہ سے جہاں 4 سے 5 مہینے ضائع ہوئے وہیں خوش قسمتی یہ تھی کہ ہمیں سپروائزر اچھے ملے جنہوں نے پے در پے رہنمائی کی۔ خوش قسمتی کا لفظ یوں استعمال کیا کہ اس سفر کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ یونیورسٹی میں ایسے سپروائزرز بھی ہیں جو مقالہ نگار کو سمجھا ہی نہیں پاتے کہ، تحقیق میں کون سا کام کب اور کیسے کرنا ہے۔

یہ تو وہ رکاوٹیں اور مشکلات ہیں جو محقق کی نہیں بلکہ ہمارے ہاں کے سسٹم کی پیدا کردہ ہیں۔ تاہم ایسی ان گنت مشکلات راہ میں آتی ہیں جو جامعہ یا کسی بھی ادارے کی جانب سے نہیں بلکہ خود محقق اپنے لیے پیدا کردیتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ طالب علم ایم فل اور پی ایچ ڈی میں داخلہ تو لے لیتے ہیں لیکن ان 2 اسناد کو حاصل کرنے کا جو سب سے اہم پہلو یعنی مقالہ لکھنا‘ ہوتا ہے، وہ اس سے دور ہی رہتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کے بغیر یہ سند حاصل ہی نہیں کی جاسکتی۔

پڑھیے: پاکستانی یونیورسٹیز میں ریسرچ کی حالت زار

وہ طالب علم جو مقالہ لکھ چکے ہیں یا ابھی تحقیق میں مصروف ہیں وہ اس پہلو سے اچھی طرح واقف ہوں گے کہ اس عمل میں کون کون سی رکاوٹیں آتی ہیں جو اس طالب علم کو اکثر و بیشتر 7 سال میں بھی پی ایچ ڈی یا 2 سال میں ایم فل نہیں کرنے دیتی۔

آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں مقالہ لکھتے وقت آنے والی مشکلات پر

  • مقالہ نگار یا محقق بار بار مختلف وجوہات کے باعث لکھنے میں عدم دلچسپی کا شکار ہوجاتا ہے، حالانکہ زندگی کے ایسے کام جو مقالہ نگار کو لکھنے کے دوران دلچسپی کم کرتے ہیں وہ بعض اوقات محض ایک گھنٹہ، ایک دن یا ایک ہفتے پر مبنی ہوتے ہیں لیکن ان چند دنوں کی وجہ سے ان کے لکھنے کا عمل مہینوں کی تاخیر کا شکار ہوجاتا ہے۔
  • مقالہ لکھتے لکھتے یہ واضح ہونے لگتا ہے کہ انتخاب کیے گئے موضوع کی افادیت اب ویسی نہیں رہی جو انتخاب کرتے وقت سمجھی جا رہی تھی۔
  • سپروائزر کا چناؤ مشکل ہو جانا کہ آخر کام کس کے ساتھ کیا جائے۔
  • سپروائزر اس طرح تعاون نہیں کررہا جس طرح کرنا چاہیے۔
  • مقالہ کا دائرہ کار بڑھتا ہی جارہا ہے جسے محدود کرنے میں خاصی مشکل پیش آتی ہے۔
  • کسی موقع پر محقق سوچنے لگتا ہے کہ ’سمجھ ہی نہیں آرہا کہ مقالے میں اب کیا کرنا ہے؟‘
  • مقالے سے متعلق مواد نہ ملنا بھی تحریر کو التوا کا شکار بنا دیتا ہے جو بہت عام ہے۔
  • پی ایچ ڈی کرنے کی تو ٹھان لی جاتی ہے تاہم یہ ہدایات نہیں ملتیں کہ مقالے کا کام کس طرح آگے بڑھانا ہے۔
  • کسی بھی موضوع سے متعلق منسلک اداروں کا تعاون نہ کرنا بھی مقالے کو مکمل ہونے سے روکے رکھتا ہے۔
  • ریسرچ کے لیے موضوع کا انتخاب تو ہوجاتا ہے تاہم یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ کون سے باب کو کس کس طرح لکھنا ہے اور اس کے لیے کس قسم کی مواد کی ضرورت ہوگی۔
  • ریسرچ کے طریقہ کار اور ٹولز سے ناواقفیت بھی اسے التوا کا شکار بناتی ہے۔
  • تحریر کے دوران وسیع مطالعہ اور حقیقیت پسند نہ ہونا بھی مشکلات کا باعث بنتا ہے۔
  • مفروضے بناتے وقت جانب داری اور غیر جانبداری کا فرق معلوم ہی نہ ہونا۔
  • مقالے کو کس طرح لکھنا ہے اس کا سرے سے علم ہی نہ ہونا مقالہ نگار کو بعض اوقات لے ڈوبتا ہے۔

یہ وہ تمام رکاوٹیں ہیں جن میں سے کوئی نہ کوئی رکاوٹ تحقیق کرنے والے کی راہ میں آتی ہی ہے اور ان مشکلات سے نکلتے نکلتے برسوں گزر جاتے ہیں اور مقالہ مکمل نہیں ہوتا، جس کے سبب سی وی پر ایم فل یا پی ایچ ڈی (انرولڈ) ہی لکھا رہ جاتا ہے۔

پڑھیے: اصلی طلباء کی جعلی ریسرچ

تحقیق بلاشبہ آسان کام نہیں، جو طالب علم یہ ٹھان لے کہ اسے اپنی زندگی کا کچھ وقت صرف اور صرف مقالے کی تحریر کو ہی دینا ہوتا ہے تب جاکر وہ کام کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

وہ طریقہ کار جو کسی بھی مقالے کی تحریر کے دوران محقق کو اپنانے چاہیئں

  • محقق ایسے موضوع کا انتخاب کرے جس کا تعلق محض ماضی یا حال سے منسلک نہ ہو بلکہ مستقبل سے بھی اس کا کوئی تعلق ہو۔
  • محقق کو کسی صورت کسی بھی موقع پر مایوس ہونے اور امید کا دامن چھوڑنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے، بلکہ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے منتخب کردہ موضوع سے متعلق مطالعہ کرتے رہنا چاہیے، اسی مستقل مزاجی کی مدد سے راہیں خود بہ خود ہموار ہوجاتی ہیں۔
  • اپنے موضوع سے متعلق دنیا بھر میں ہونے والے تحقیقی کاموں کا بغور جائزہ لیتے رہنے سے بھی تحقیق کے کام میں کافی آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔
  • اپنے سپر وائزر کا انتخاب کرتے وقت وہ اچھی طرح سے جان لے کہ وہ انتخاب کیے گئے موضوع کے بارے میں معلومات رکھتے بھی ہیں یا نہیں؟ اور اگر دلچسپی رکھتے ہیں تو کس قدر؟
  • اپنے مقالے میں ہر باب، ہر موضوع، ہر ٹیبل اور ہر گراف کے لیے وقت کا تعین کریں۔ مقالہ نگار بلاشبہ اس وقت تک اپنا مقالہ نہیں لکھ سکتا جب تک اسے وقت کا تعین کرنا یا ’ڈیڈ لائن‘ سے واقفیت نہ ہو اور اگر وقت کا تعین کرنا نہیں آتا تو پھر پی ایچ ڈی کے لیے ملے ہوئے 7 سال تو کیا اگر 14 سال بھی مل جائیں تب بھی یہ ڈگری حاصل نہیں کی جاسکتی۔
  • مقالہ نگار اگر اچھا مقالہ لکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ موضوع سے متعلق دنیا بھر میں ہونے والے تحقیقی کام کو ڈھونڈے اور اسے سامنے رکھتے ہوئے اپنے مقالے کے لیے رہنمائی حاصل کرے۔
  • سب سے اہم یہ کہ محقق پی ایچ ڈی کی ابتدا سے مقالہ مکمل ہونے تک تحقیقی کام نہ روکے پھر چاہے وہ روزانہ کی بنیاد پر تھوڑا تھوڑا یا ہفتے میں چار دن ہی کیوں نہ کرے، لیکن کام جاری رکھنا شرط ہے۔
  • تھوڑا تھوڑا کام کرکے اپنے سپر وائزر کو چیک کروانا بھی بہترین عمل ہے، یوں محقق پُرامید رہتا ہے اور آگے کام بڑھانے میں اسے مدد ملتی ہے۔

لگن، پُرامیدی اور مطالعے کے بغیر کوئی بھی محقق اپنا مقالہ کسی بھی صورت مکمل نہیں کرسکتا اور اگر وہ مذکورہ باتوں پر عمل کرتا ہے تو یقیناً اس کا کام نہ صرف آسان ہوسکتا ہے بلکہ بہترین اور قابلِ تحسین بھی۔

بڑے بڑے اسکالرز نے اپنے اپنے مقالے تحریر کرنے کے بعد یہ بیان کیا ہے کہ مقالہ مکمل ہونے تک کے مراحل میں محقق ثابت قدم، مطالعے سے سرشار اور جب تک اپنے کام کو اعصاب پر طاری نہ کرلے تب تک وہ مقالے کو تحریر نہیں کرسکتا۔

جب محقق مندرجہ بالا اصولوں پر چل کر اپنا مقالہ تحریر کرے گا تو زندگی بھر اپنے کام اور ضمیر سے مطمئن رہے گا کہ اس نے درست سمت اور ثابت قدمی اوراپنی محنت سے مقالہ خود تحریر کیا ہے۔

بالکل اسی طرح مجھے ان مشکلات سے لڑتے لڑتے کم و بیش 4 سال بیت گئے ہیں اور اس دوران میری گاڑی بہت سی جگہ رُکی اور پھر چلی، پھر رکی اور پھر چلی اور یوں یہ سفر اختتام کو پہنچا۔ یہ سفر آسان نہیں تھا، اس میں کبھی کبھی اپنی کوتاہی شامل تھی تو کبھی انتظامی پالیسیوں نے مقالہ نگاری کو ایک آگ کا دریا بنا دیا تھا مگر لگن، ہمت اور تحقیق سے دلچسپی ہو تو آگ کا دریا پار کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔

تبصرے (5) بند ہیں

faraz khan Oct 15, 2018 08:55pm
مبروک
riz Oct 16, 2018 03:14am
the best way to write is "thesis through publication". the big book scholar writes after tremendous effort (usually 80k to 100k words), no one going to read it. it is advisable to plan your thesis from beginning in a way that each chapter can be taken from your journal publication. in this way, at least more than half if not full chapters will be from an already published paper and later in final months one does not need much efforts to compile the thesis. also, these journal articles will be there in the body of knowledge forever and will be cited regularly and it is rare researcher cites a PhD dissertation.
Aleem Ahmed Oct 16, 2018 04:33pm
ماشاء اللہ، خوب لکھا ہے۔
اورنگ Oct 16, 2018 05:21pm
@riz نہایت معقول بات کی ہے۔ پیشگی منصوبہ بندی سے تھیسس بروقت مکمل کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ایک میراتھن ہے، ۱۰۰ میٹر دوڑ نہیں۔
Waqas Ali Oct 16, 2018 05:30pm
تحقیق کے عملی میدان سے وابستہ ورشہ نے اپنی مضمون میں کئے داخلی اور خارجی مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ان کے ممکنہ حل بھی تجویز کیے، جو قابل ستائش ہے۔