اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کے حقوق بتدریج محدود ہو رہے ہیں اور آئینی تحفظ، عالمی دستور پر دستخط کے باوجود انہیں معاشرے اور ریاست کی جانب سے عدم برداشت کا سامنا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے ماتحت تشکیل پانے والے قومی بین المذاہب ورکنگ گروپ کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ’میں تجویز پیش کرتا ہوں کہ ایچ آر سی پی قومی کمیشن برائے انسانی حقوق، وزارت انسانی حقوق، قومی اسمبلی اور سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹیوں سمیت دیگر اداروں کے ساتھ مل کر اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کام کرے‘۔

یہ بھی پڑھیں: اقلیتوں کے تحفظ کا بل: ’کوئی شق شریعت کے منافی نہیں‘

تقریب میں مذہبی اقلیتوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ، بین المذاہب مکالمے، آگاہی، تربیت اور اقدامات کے حوالے سے بحث ہوئی۔

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے زور دیا کہ اس ضمن میں جمہوری کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ مذہبی اقلیتیں بھی ملک کا حصہ ہیں چاہیے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔

سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر نے کہا کہ گزشتہ 70 برس سے ہم یہ ہی کہتے رہے کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے اور ریاست کا کردار صرف مصالحت کار کا ہے۔

مزید پڑھیں: ’اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے‘

اس ضمن میں انہوں نے عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کونسل سے ہٹانے پر حکومت پر تنقید کی۔

بشریٰ گوہر کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پارٹیوں کا کردار بہت اہم تھا، بدقسمتی سے جب بھی مذہبی شدت پسند جماعتوں کی جانب سے دباؤ پڑتا ہے وہ پسپائی اختیار کرتے ہوئے محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں۔

مسیحی خاتون رومانہ نے ان اداروں پر تنقید کی جو سمجھتے ہیں کہ مسیحی لوگ صرف صفائی ستھرائی کا کام کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پختونخوا کی اقلیتی برادری یومِ آزادی کیسے مناتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔

تقریب کے اختتام پر سرکلر جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ’مذکورہ گروپ فیکٹ فائنڈنگ کا کام کرے گا تاکہ ملک بھر میں اقلیتوں کے مذہبی عقائد کی آزادی کا جائزہ لیا جا سکے۔


یہ خبر 26 ستمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں