سری نگر: گزشتہ 71 سالوں میں مقبوضہ جموں و کشمیر غاصبانہ قبضے کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں مگر پچھلے ساڑھے 4 سال کا عرصہ کشمیری قوم کے لیے واقعتاً ایک کڑے امتحان کا دور ہے۔

ہندو برتری کی قائل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 2014 میں ہندوستان میں تقریباً فیصلہ کن اکثریت سے اقتدار میں آئی۔ یہ پہلی بار تھی جب بی جے پی سری نگر میں اتحادی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور پھر یہ کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کا اپنا خواب پورا کرنے کی جانب ایک قدم آگے بڑھی۔

چیئرمین جموں کشمیرلبریشن فرنٹ،یٰسین ملک
چیئرمین جموں کشمیرلبریشن فرنٹ،یٰسین ملک

ہندوستان کی آزادی کے پہلے دن سے ہی ہندو قوم پرستوں نے کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ انضمام کا خواب دیکھا ہے۔ فاشسٹوں کی کئی دہائیوں سے کوششیں ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔

ان کے عزائم کا جزوی طور پر اندازہ تب ہوا جب انہوں نے جموں میں مسلمانوں کی نسل کشی شروع کی۔ بچ جانے والے اور ان کی نسلیں پاکستان کے شہروں سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، کراچی اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں اب جگہ جگہ پائے جاتی ہیں۔

آر ایس ایس اور بی جے پی کی قیادت میں ہندو انتہاپسند قوتوں نے مسلسل 1927 میں مہاراجہ ہری سنگھ کے نافذ کردہ قانون کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے اور کشمیر کے لوگوں کو جھکانے کی کوششیں کی ہیں۔

پڑھیے: نئے پاکستان میں پرانا مسئلہ کشمیر

2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی نے اس قانون کے خاتمے کے لیے ایک منظم مہم شروع کی۔ اس میں تجویز دی گئی تھی کہ پاکستان سے آنے والے ہندو مہاجرین جو جموں و کشمیر کے علاقوں میں رہ رہے تھے، انہیں مستقل شہریت دے دی جائے، کشمیری پنڈتوں کے لیے مغربی کنارے پر اسرائیلی آبادیوں کی طرز پر علیحدہ کالونیاں بنائی جائیں اور سابق ہندوستانی فوجیوں کے لیے ایک فصیل بند شہر تعمیر کیا جائے۔

کشمیریوں کے پاس ایک ہی آپشن تھا؛ مزاحمت یا پھر خاتمہ، اور کشمیریوں نے مزاحمت کا انتخاب کیا جیسا کہ وہ کئی دہائیوں سے کرتے آ رہے ہیں۔ بی جے پی حکومت کی کشمیری مزاحمت سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کی حکمتِ عملی کی وجہ سے کشمیری نوجوان ہلاک ہو رہے ہیں۔

موجودہ دور کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ جب ہندوستان جیسی جدید ریاستیں اختلاف کو دبانے اور عوامی مزاحمت کو کچلنے کے لیے طاقت کا غیر متوازن استعمال کریں تب بھی مسلح جدوجہد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔

"قانون کی بالادستی" نامی فراڈ کے ذریعے ریاستی جبر و تشدد کو جائز قرار دیا جاتا ہے جبکہ مظلوم و مجبور طبقے کے ہتھیار اٹھانے کے پیچھے موجود وجوہات کو بالکل بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔

کشمیر ایسی ہی ایک مثال ہے۔

اچھا ہوتا اگر ہماری کہانی سے ایک دو سبق سیکھے جاتے۔ مجھے کشمیر میں غیر متشدد عوامی مزاحمت کا کلچر مضبوط کرنے کے لیے 3 ہزار کے قریب دیہاتوں کا کٹھن سفر کرنا پڑا جس کے دوران میں نے 15 لاکھ دستخط اکھٹے کیے۔

نتائج نہایت حوصلہ افزاء تھے اور 2008 میں کشمیریوں نے وہی کیا جو دنیا ان سے چاہتی تھی، یعنی انہوں نے تشدد کا راستہ چھوڑ دیا۔ وہ بین الاقوامی یقین دہانیوں پر یقین کر بیٹھے مگر بدقسمتی سے ان کے ساتھ دھوکہ ہوا۔

بین الاقوامی برادری اور ہندوستانی لبرلز نے انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ اور پھر ہندوستانی ریاست نے وہی کچھ دہرایا جو اس نے 1988 میں کیا تھا۔ اس نے سیکڑوں کو قتل کیا، جبکہ ہزاروں دیگر کو جیلوں میں ڈالا، تشدد کیا، رسوا کیا اور عدم تشدد کے لیے راستہ کھلا نہ چھوڑنے کی پالیسی پر عملدرآمد جاری رکھا۔

میں نے حال ہی میں کئی کشمیری دیہات کے خفیہ دورے کیے تاکہ گرفتاری سے بچ سکوں۔ یہاں میں ایسے کئی خاندانوں سے ملا جن کے پیاروں نے مسلح مزاحمت میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ کیوں سیاسی شعور رکھنے والی اور تعلیم یافتہ کشمیری نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے مسلح جدوجہد کا راستہ اپنایا تھا۔

مزید پڑھیے: ’بھارت! مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرو!‘

جن وجوہات نے میری نسل کو 1988 میں مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا اور وہ وجوہات جو مسلح مزاحمت کی اس نئی لہر کے پیچھے ہیں تقریباً ایک ہی جیسے ہیں۔ میں نے گزشتہ سال دیکھا کہ جبر اب مزید سخت ہو چکا ہے اور گزشتہ سال جیل سے رہائی کے بعد میں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہتھیاروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہزاروں نوجوان مسلح جدوجہد سے مایوس ہو رہے تھے اور یہ کہ ہندوستان کو اپنے پڑوسی ممالک کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ وہ اس صورتحال سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔

یہ آج کے کشمیر کی تلخ حقیقت ہے۔ یہ مجھے نہایت فکرمند کرتی ہے مگر کئی لوگوں کے لیے جابروں نے صرف یہی راستہ چھوڑا ہے۔ جب میں ہندوستانی فوجیوں کے ساتھ معرکے میں پھنسے ہوئے کسی ٹین ایج لڑکے کو کی گئی اس کی ماں کی آخری فون کال سنتا ہوں جس میں وہ اپنے بچے کو ثابت قدم رہنے اور شہادت پانے کا کہتی ہیں اور کوئی بھی چھوڑا گیا قرضہ چکانے کا وعدہ کرتی ہیں تو میرا دل ٹوٹ جاتا ہے۔

یہ کوئی مثالی صورتحال نہیں ہے۔ میں نے کبھی کسی کشمیری ماں سے اس کی توقع نہیں کی تھی مگر جیسا کہ نیلسن منڈیلا نے درست طور پر کہا ہے: "حریت پسندوں کو کافی مشکلات کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ جدوجہد کی نوعیت کا تعین جابر کرتا ہے اور مجبور کے پاس اکثر اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا کہ وہ جابر کے طریقوں کا ہی استعمال کرے۔"

ایک وقت آتا ہے جب آگ کا مقابلہ صرف آگ سے کیا جا سکتا ہے۔ تو کشمیریوں کے خلاف ہندوستانی جارحیت اور مودی کی پالیسیوں نے اسی چیز کو جنم دیا ہے: ایک زیادہ مزاحم، سختیاں سہہ چکا اور مرنے کے لیے تیار کشمیری۔

تشدد کی اس لہر میں بے شمار ہلاکتیں پریشان کن ہیں مگر ان سے امید بھی ملتی ہے کہ ایک نہ ایک دن جابر اور دنیا بھر میں موجود اس کے حامی عقلیت پسندی سے کام لینے پر مجبور ہوں گے۔

ہندوستان نے کشمیریوں کو جھکانے کے لیے ہر ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔ گولیوں، چھروں، آنسو گیس، مرچ کے گولوں، عقوبت خانوں، این آئی اے جیسی انٹیلیجینس اداروں اور تہاڑ جیسے جیلوں کے باوجود یہ کشمیریوں کی حقِ خود ارادیت کی جدوجہد کو دبانے میں ناکام رہا ہے۔

حال ہی میں کشمیر میں 50 سال میں پہلی بار گورنر راج لگایا گیا ہے اور اب کشمیر کے پاس ایک سیاسی گورنر ستیہ پال ملک ہیں۔

مودی حکومت کے مقاصد واضح ہیں۔ بی جے پی کے جنرل سیکریٹری رام مادھو اور کشمیر امور کے انچارج نے اگست کی 27 تاریخ کے ایک مضمون "ایک موزوں گورنر" میں لکھا تھا: "گورنر کے طور پر ان کا ایجنڈا واضح ہے، یعنی ترقیاتی سرگرمیوں کو تیز تر کرنا، گورننس میں موجود خامیاں دور کرنا، اور انسدادِ دہشتگردی کے مضبوط اقدامات کو جاری رکھنا۔"

"مگر اس سے بھی زیادہ اہم کام ریاست میں سیاسی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کروانا ہے۔ آخری گورنر وہرا کے اعلان کردہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اس سمت میں ایک درست قدم ہے مگر یہ کافی نہیں ہے۔ قانون سازوں کو ریاست میں سرگرمی کے ساتھ سیاسی اور ترقیاتی کاموں میں حصہ لینے کے لیے ابھارنا ہوگا۔"

"سیکیورٹی فورسز کی بندوقوں یا بیوروکریٹس کے قلم کو گورننس کا مستقل خاصہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسے جلد از جلد سیاسی قیادت کی جانب لوٹنا چاہیے۔"

پڑھیے: کشمیر کی التجا: ہماری آنکھیں ہم سے مت چھینیں

رام مادھو کے خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سبق اب بھی نہیں سیکھا گیا ہے۔ مودی حکومت نئے گورنر کی صورت میں کالونیئل دور کا تھانیدار چاہتی ہے تاکہ وہی سیاسی کھیل نئے انداز میں کھیلے جائیں۔ "آپریشن آل آؤٹ" کو امن کی چادر میں لپیٹ کر پیش کیا جائے گا مگر پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہندوستان اس سے اپنے مقاصد حاصل کر سکے گا، جواب ہے 'نہیں'۔

ہندوستانی میڈیا کا ایک حصہ جموں و کشمیر کو 3 حصوں میں تقسیم کرنے کے مودی کے منصوبوں کے بارے میں خبریں پھیلاتا ہے۔ کچھ لوگوں کی دلیل ہے کہ بلدیاتی انتخابات، جن کا ہندوستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی پارٹیاں نیشنل کانفرس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، کمیونسٹ پارٹی اور کئی دیگر بھی بائیکاٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، درحقیقت خطے کو 3 حصوں میں تقسیم کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ ہندوستان اس سے کیا حاصل کر لے گا۔ آخر یہ کیسے مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی کر سکتا ہے اور عالمی برادری کس طرح ان خلاف ورزیوں کو خاموشی سے دیکھ سکتی ہے۔

3 حصوں میں تقسیم کے اس نئے نعرے کو کشمیری عوام سیاست کو برادریوں تک محدود کرنے اور عوام کو پریشان کرنے کی ایک نئی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔

مگر ایک ذمہ دار کشمیری کے طور پر میں یہ ضرور کہوں گا کہ کشمیری عوام اپنی ریاست کی ایسی تقسیم کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔

میں انگنا پی چیٹرجی کے ایک قول پر اختتام کروں گا جنہوں نے کشمیر: دی کیس آف فریڈم میں لکھا تھا کہ "ہندوستان آسانی سے برٹش راج کے دوران اپنی تاریخ، اور اپنے حریت پسندوں کے اس اعلان کو بھول جاتا ہے کہ جابر کے پاس یہ فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں کہ عوام آزادی کے مستحق کب ہیں۔"

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 27 ستمبر 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں