ڈی پی او پاکپتن تبادلہ کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دوست احسن جمیل گجر نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔

احسن جمیل گجر نے اپنے معافی نامے میں لکھا کہ وہ قانون کے پابند شہری اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں اور حکومت کے انتظامی کام میں مداخلت کا کبھی نہیں سوچا۔

انہوں نے لکھا کہ 'وزیر اعلیٰ ہاؤس اجلاس میں خاور مانیکا اور ان کی فیملی کا مؤقف پیش کرنے کے لیے شریک ہوا، اپنے اس اقدام پر شرمندہ ہوں اور عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ ہمشہ قانون کے مطابق رویہ اختیار کروں گا۔

واضح رہے کہ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے ازخود نوٹس کی گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق آئی جی پنجاب کلیم امام کی انکوائری رپورٹ مسترد کرتے ہوئے نیکٹا کے سربراہ خالق داد لک کو معاملے کی ازسر نو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈی پی او تبادلہ کیس: چیف جسٹس کا ازسر نو تحقیقات کا حکم

چیف جسٹس نے کلیم امام کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ نے ایک شخص کو بچانے کے لیے رپورٹ میں سب اچھا لکھا ہے، آئی جی صاحب! آپ نے اپنے ہی افسران کو رپورٹ میں جھوٹا ثابت کردیا۔'

سماعت کے دوران احسن جمیل گجر نے اپنے رویے کی غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔

آر پی او ساہیوال کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا کہ احسن جمیل گجر میرے دوست ہیں، ان کی بات سنیں، ڈی پی او نے مانیکا فیملی کے ساتھ واقعات سے آگاہ کیا اور کہا کہ تاثر ملا ہے کہ ڈیرے پر جاکر معافی مانگوں۔

کیس کا پس منظر

23 اگست کو خاتون اول بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور فرید مانیکا کو مبینہ طور پر روکنے والے ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں رپورٹس کے مطابق خاور فرید مانیکا نے غصے میں ایلیٹ فورس کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی اور ڈی پی او رضوان عمر گوندل کو ڈیرے پر آکر معافی مانگنے کا کہا جس پر انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس میں پولیس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔'

ڈی پی او رضوان عمر گوندل نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی خاور فرید مانیکا سے معافی مانگنے سے انکار کے اپنے موقف سے آگاہ کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی پی او تبادلہ کیس: خاور مانیکا کی بیٹی سے بدسلوکی کی تحقیقات کا حکم

27 اگست کو پنجاب پولیس کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ان کا تبادلہ کردیا گیا، جس کے بعد اوکاڑہ کے تحقیقاتی افسر شاکر احمد شاہد کو پاکپتن کے ڈی پی او کا اضافی چارج دے دیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں آئی جی پنجاب ڈاکٹر سید کلیم امام نے معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ڈی پی او کا تبادلہ کسی دباؤ پر نہیں بلکہ واقعے کے متعلق غلط بیانی کرنے پر کیا گیا۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ شہری سے اہلکاروں کی بدتمیزی پر ڈی پی او نے غلط بیانی سے کام لیا، ٹرانسفر آرڈر کو غلط رنگ دینے، سوشل میڈیا پر وائرل کرنے پر رضوان گوندل کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا گیا۔

بعد ازاں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کے معاملے کا ازخود نوٹس لیا۔

تبصرے (0) بند ہیں