مقامی طور پر تیار کی گئی گاڑی کے مالکان کو کس کس طرح تنگ کیا گیا؟

12 نومبر 2018
پروفیشینٹ پِک اپ: پاکستان کا سوزوکی کی اجارہ داری کو چیلنج۔ — تصاویر بشکریہ ہیرالڈ، اپریل 1989
پروفیشینٹ پِک اپ: پاکستان کا سوزوکی کی اجارہ داری کو چیلنج۔ — تصاویر بشکریہ ہیرالڈ، اپریل 1989

مقامی طور پر تیار ہونے والی پاکستان کی پہلی گاڑی پروفیشینٹ (Proficient) کے سامنے موجود مسائل پاکستان میں دوسرے انٹرپرینیئورز کے سامنے موجود مسائل جیسے ہی ہیں جس سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ تاخیری حربوں اور نااہلی پر کاربند بیوروکریسی صنعتی ترقی اور خود انحصاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔


دُور سے دیکھیں تو یہ کراچی کی سڑکوں پر دوڑتی کئی دیگر سوزوکی گاڑیوں کی طرح ہی نظر آتی ہے۔ مگر قریب سے دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ہیڈ لائٹس اور اگلی جالی تھوڑی سی مختلف ہیں اور غیر یقینی کیفیت فخر میں تب بدلتی ہے جب اس کے تیار کنندہ فخریہ انداز میں اگلی سیٹ اٹھا کر نیچے موجود انجن دکھاتے ہیں جس پر گاڑی کا نام 'پروفیشنٹ' جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔ کئی اخباری اشتہارات کے باوجود کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یہ گاڑی مکمل طور پر پاکستان میں تیار شدہ ہے۔

مگر کراچی کی پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں اپنے وِنمارک انڈسٹریز کے دفتر میں بیٹھے ہوئے اس گاڑی کے تیار کنندہ خلیل الرحمٰن نارتھ کراچی کے دُور دراز صنعتی علاقے میں اپنی فیکٹری لوگوں کو دکھانے کے لیے زیادہ پُرجوش نظر نہیں آتے۔ وہ کہتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ اس گاڑی کی تیاری کا زمانہ قدیم کا طریقہ دیکھ کر بہت حیران رہ جاتے ہیں۔ شہر کی ٹریفک سے الجھتے ہوئے اور کچی آبادیوں کی تنگ گلیوں سے گزرنے کے بعد بھی فیکٹری اب بھی کوئی چوتھائی میل دُور ہے جبکہ اس تک پہنچنے کے لیے کوئی کچا راستہ بھی موجود نہیں۔

فیکٹری 2 ہزار گز کے پلاٹ پر بنی ہوئی ہے جس کی چار دیواری ہے اور ایک اینٹوں کی بنی ہوئی ایک بے رنگ 3 منزلہ عمارت اس پلاٹ کے بیچ میں قائم ہے۔ اس کے اگلے صحن کو باآسانی آپ شہر بھر میں موجود ڈینٹنگ پینٹنگ کی ہزاروں دکانوں میں سے ایک سمجھ سکتے ہیں۔ ایک کونے میں چیسز کی کٹائی اور ویلڈنگ ہو رہی ہے تو دوسرے کونے میں ہتھوڑوں کی ضربوں سے ڈرائیور کے کیبن کی ساخت بنائی جا رہی ہے۔ چیزیں اٹھانے اور دوسری جگہ پہنچانے کا سارا کام ہاتھ سے کیا جاتا ہے جبکہ گیس ویلڈنگ کا آلہ ہی یہاں موجود سب سے جدید اوزار ہے۔

پِک اپ کا ہاتھ سے تیار کیا گیا بیرونی ڈھانچہ
پِک اپ کا ہاتھ سے تیار کیا گیا بیرونی ڈھانچہ

لگتا ہے کہ اس پورے پراجیکٹ کے پیچھے مقصد صرف یہ ہے کہ اس نظریے کو غلط ثابت کیا جائے کہ جدید گاڑیاں باہر سے درآمد شدہ ہیوی مشینری کے استعمال کے بغیر نہیں بنائی جاسکتیں۔ مگر گاڑی تیار کرنے والے کی سب سے بڑی کامیابی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے انجن بلاک اور گیئر باکس تیار کیا جاتا ہے۔ سادہ مٹی سے پہلے انجن بلاک کے لیے ایک بیرونی سانچہ تیار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد پگھلی ہوئی دھاتوں کو مطلوبہ شکل دینے کے لیے تندور جیسی ایک بھٹی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کھردری سطحوں کی گھسائی کی جاتی ہے پھر مقامی طور پر تیار شدہ لیتھ مشینوں کے ذریعے فنشنگ کی جاتی ہے۔

ہینڈ بریک کے لیورز سے لے کر سیٹوں کی گدیوں تک سب کچھ ہاتھ سے بنایا جاتا ہے اور پراڈکٹ کو عدم سے وجود میں لانے کے لیے مکمل طرح سے روایتی طریقوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

واضح طور پر اس پورے کام میں شدید محنت لگتی ہے۔ مگر کچھ محتاط سوالوں سے ان مسائل کا علم ہوتا ہے جو اس کاروبار کے سامنے موجود ہیں۔ ویسے تو اس کے بے خوف مالک نیشنل ڈیولپمنٹ فنانس کارپوریشن سے کچھ مالی امداد حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں مگر ان کے سامنے اب بھی دیگر سرکاری اداروں کو ان کے منصوبے کے قابلِ عمل ہونے پر قائل کرنے کا ایک مشکل کام باقی ہے۔

گاڑی کے تیار کنندگان نے خود کو ایسی بیوروکریٹک بھول بھلیاں میں پایا ہے جس میں زیادہ تر مقامی پراجیکٹس گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ منصوبے کی فزیبلٹی دکھانے کے لیے مختلف حکومتی اداروں سے معاونت کی ضرورت ہے جس میں بجلی، پانی اور ٹیلیفون کمپنیوں کے تعاون سے لے کر برآمدی لائسنس اور سیلز ٹیکس پر چھوٹ تک شامل ہے۔ مگر یہی متعلقہ سرکاری ادارے تب تک ان میں سے زیادہ تر سہولتیں فراہم کرنے سے انکاری ہیں جب تک کہ انہیں منصوبے کے قابلِ عمل ہونے کا یقین نہیں ہوجاتا۔

گیئرباکس کے لیے ہاتھ سے سانچے تیار کیے جا رہے ہیں
گیئرباکس کے لیے ہاتھ سے سانچے تیار کیے جا رہے ہیں

وِنمارک کمپنی کی جانب سے حکومتی سرپرستی حاصل کرنے کی کوششیں ایک زبردست کیس اسٹڈی ہے کہ کس طرح مختلف حکومتی ادارے کسی بھی تعمیری کوشش کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے بظاہر متحد ہوجاتے ہیں۔ درخواستوں اور کاغذات کی ٹریل ان حکومتی اداروں تک بھی پہنچتی ہے جن کا ایسے سرمایہ کاری منصوبوں سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

سب سے پہلے تو یہ کہ فیکٹری کو اب تک بجلی کا کنکشن نہیں دیا گیا جبکہ بظاہر پورے علاقے میں بجلی موجود ہے۔ ٹیلیفون کے محکمے نے انہیں خط کے ذریعے اطلاع دی ہے کہ وہ فیکٹری تک لائن بچھانے میں ناکام ہیں مگر کھڑکی سے باہر نظر ڈالیں تو ساتھ ہی موجود مِل کے پاس 2 ٹیلیفون لائنز ہیں جبکہ کچھ سو گز دُور موجود آرمی کیمپ کا بھی اپنا ٹیلیفون کنکشن ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ تقریباً آدھے شہر کی طرح اس علاقے میں بھی پانی کی فراہمی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔

صنعتی ترقی کے لیے درکار بنیادی ضروریات کی عدم موجودگی تو کہانی کا صرف آغاز ہے۔ 'ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ذریعے معاشی خودمختاری' جیسے پُرکشش نعروں کے بعد بیوروکریسی کے پاس اب بہانے ختم ہوتے جا رہے ہیں جن کے ذریعے وہ غیر ملکی معاونت سے لگنے والے منصوبوں کے لیے اپنی ترجیح کو چھپا سکے۔

جیسا کہ بھرے بیٹھے مالکان کہتے ہیں، ’سوزوکی کمپنی پوری حکومت اپنی ایک دن کی کمائی سے خرید سکتی ہے‘۔ ان کے مطابق چونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پروفیشینٹ پِک اپ سوزوکی کیری کے ساتھ اسی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس لیے حکومت کو دستیاب تمام وسائل کا استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ اس منصوبے کا گلا گھونٹ دیا جائے یا کم از کم اسے مقابلے سے باہر کردیا جائے۔

اسمبلی لائن کی شروعات یہاں سے ہوتی ہے
اسمبلی لائن کی شروعات یہاں سے ہوتی ہے

مثال کے طور پر ایک سرکاری گزٹ نوٹیفیکیشن سوزوکی پِک اپس یا مقامی طور پر تیار کی گئی کسی بھی مال بردار گاڑی کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ بھلے ہی پروفیشینٹ پِک اپ بظاہر گزٹ میں موجود تمام لوازمات پر پورا اترتی ہے، مگر پھر بھی وِنمارک کو کلکٹر آف سینٹرل ایکسائز اینڈ لینڈ کسٹمز کراچی کی جانب سے سیلز ٹیکس کی عدم ادائیگی پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا اور جب انہوں نے موجودہ ضوابط کے تحت سیلز ٹیکس سے استثنیٰ کی درخواست کی تو انہیں 33 ہزار 375 روپے کا جرمانہ ادا کرنے کے لیے کہا گیا۔

رحمٰن کہتے ہیں کہ ’وہ تمام پارٹس جو ہم خود تیار نہیں کرتے، انہیں ہم بازار سے خریدتے ہیں اس لیے ہمیں ان پر سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد گاڑی کی فروخت پر دوبارہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے‘۔ یہ نہایت حیران کن ہے کہ ادا کی گئی درآمدی ڈیوٹیز اور ٹیکسوں کے باوجود پروفیشینٹ، سوزوکی سے صرف 3 چوتھائی قیمت پر دستیاب ہے جبکہ مؤخر الذکر کو تمام ڈیوٹیز اور ٹیکسوں سے استثنیٰ حاصل ہے۔

حکومت کا عدم تعاون پر مبنی رویہ اُس وقت کھل کر سامنے آیا جب وِنمارک کو اس کی گاڑی کے لیے سرٹیفیکیشن اس بنیاد پر جاری کرنے سے انکار کردیا گیا کہ گاڑی کے حفاظتی معیارات پر پورا اترنے کا جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔ مایوس مگر ہمت نہ ہارنے والے تیار کنندگان نے اپنی پِک اپ کی جانچ انگلستان کے انسٹیٹیوٹ آف انجینیئرز اینڈ ٹیکنیشنز کے ماہرین سے کروائی جنہوں نے گاڑی کو ہر معیار کے مطابق قرار دیا۔

اس کے باوجود وِنمارک کو اندازہ ہوگیا کہ بیوروکریسی کے ساتھ جنگ ابھی اختتام سے بہت دُور تھی۔ گاڑی تیار کرنے والی کمپنی کی صلاحیت پر شک کرنے والی کئی یادداشتیں اب بھی متعلقہ حکام کے درمیان گردش کرتی رہتی ہیں حالانکہ گاڑی کو مارکیٹ میں آئے اب 2 سال ہوچکے ہیں۔ اسی طرح گاڑی کو بنگلہ دیش اور خلیجی ممالک برآمد کرنے کے لیے متعلقہ حکومتی اداروں کو بھیجی گئی درخواستوں کو بھی کسی نہ کسی وجہ کی بنا پر سردخانے کی نذر کردیا گیا ہے۔

مقامی طور پر تیار کیے گئے کئی پرزوں میں سے ایک
مقامی طور پر تیار کیے گئے کئی پرزوں میں سے ایک

غور کریں کہ وِنمارک کی جانب سے 1000 سی سی انجن کی ایک فیملی سیڈان گاڑی بنانے کی اجازت کے لیے درخواست کو متعلقہ حکام نے کس طرح رد کیا۔ درخواست دہندگان کے لیے یہ حیرت کی بات نہیں تھی جنہوں نے دعوٰی کیا کہ ان کی درخواست کے مسترد ہونے کی وجہ سوزوکی کا 1000 سی سی سوزوکی سوئفٹ بنانے کا تازہ ترین منصوبہ ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ پیغام میں لکھا تھا کہ اگر تمام ضروری دستاویزات کے ساتھ درخواست اس نوٹس کے موصول ہونے کے 4 دن کے اندر اندر دے دی جائے تو 1300 سی سی گاڑی بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ خط کی آخری سطر میں تحریر تھا کہ اگر اس دوران وِنمارک جواب دینے میں ناکام رہی تو محکمہ یہ تصور کرے گا کہ وِنمارک کو اس بارے میں مزید دلچسپی نہیں تھی۔

اپنے سامنے موجود رکاوٹوں کے تسلسل سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے خلیل الرحمٰن کہتے ہیں کہ ’اس منصوبے کو اس کی جائز توجہ اور حمایت دلوانے کے لیے میں سرکاری افسران کو رشوت تک دینے کے لیے تیار ہوں‘۔ وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ ہر سال 90 ارب روپے صرف سوزوکی پراجیکٹ کی مد میں باہر بھیجے جا رہے ہیں اور اگر آپ گاڑیوں کی صنعت اور اس سے منسلک سروسز کے شعبے کو دیکھیں تو اصل اعداد و شمار کہیں زیادہ ہیں۔

مگر چونکہ وِنمارک کا منصوبہ ہر لحاظ سے مقامی ہے شاید اسی لیے ہر کوئی اس کی حمایت کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتا ہے۔ کوئی کمرشل بینک بھی قرضہ فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں جب تک کہ انہیں لیٹرز آف کریڈٹ، زرِ مبادلہ کی منتقلی یا بین الاقوامی بینک گارنٹیوں کے اجرا جیسی ٹرانزیکشنز کے ذریعے پیسے کمانے کا مکمل یقین نہ ہو۔ اس لیے خلیل الرحمٰن جیسے تیار کنندگان درحقیقت نقصان میں ہیں کیونکہ جب بینکوں سے مالی امداد لینے کی بات آئے تو چونکہ انہیں مہنگا ساز و سامان درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے اس سے منسلک کئی مالیاتی لین دین نہیں ہوتے لہٰذا بینکوں کو اس میں دلچسپی نہیں ہوتی۔

وِنمارک اور دیگر پاکستانی انٹرپرینیئورز کے مسائل صرف تب حل ہوسکتے ہیں جب متعلقہ حکام میں تبدیلی آئے۔ اگر تمام فوائد غیر ملکی کمپنیوں کو دیے جاتے رہیں اور اپنے ہی شہریوں کو ان فوائد سے محروم رکھا جائے تو کسی مقامی منصوبے کے ابھر کر سامنے آنے کی توقع کرنا ناممکن ہے۔

وِنمارک کا کیس اور پرویفیشینٹ پِک اپ تیار کرنے کی کوششیں میں رکاوٹ سے بیوروکریسی سے متعلق تمام رائج باتوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس سے ان لوگوں کی منافقت بھی آشکار ہوتی ہے جو ایک مضبوط، خود مختار اور غیر ملکی ڈونر اداروں کی ڈکٹیشن اور مشرق بعید کی صنعتی اجارہ داری سے آزاد پاکستانی معیشت کے صرف لفظی حامی ہیں۔


انگلش میں پڑھیں۔ یہ مضمون ماہنامہ ہیرالڈ کے اپریل 1989 کے شمارے میں شائع ہوا۔ مزید پڑھنے کے لیے سبسکرائب کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Raheem uddeen Nov 12, 2018 01:44pm
Proud to be a Pakistani, be Pakistani and buy Pakistan to save foreign exchange. Hats off to this great person and shame of red tape culture and people supporting red tape culture, all must be held accountable.
Talha Nov 12, 2018 08:19pm
Pakistani Maharat ka shahkaar........Proficient Mazbout..............Proficient paidaar.......... kiya zammana yaad karwa diya hai aap nay bhiee...........aik behtareen tehreer....... laikin hammariee bay hissi........