سندھ کے ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت اور وائرل انفکیشن کے نتیجے میں گزشتہ 2 روز میں 6 نوزائیدہ بچے جاں بحق ہوگئے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ ہلاکتیں مٹھی، ننگرپارکر اور چھاچھرو کے علاقوں میں ہوئیں۔

مزید پڑھیں: تھر میں غذائی قلت کے باعث مزید 10 بچے جاں بحق

مٹھی کے سول ہسپتال میں 3، چھاچھروں میں ایک اور ننگرپارکر کے دیہی ہیلتھ سینٹر میں ایک نومولود جاں بحق ہوا۔

غذائی قلت اور وائرل انفکیشن کی وجہ سے گزشتہ 5 برس میں نوازئیدہ بچوں کی مجموعی ہلاکتیں 494 تک پہنچ چکی ہیں۔

متاثرہ بچوں کے والدین نے سرکاری ہسپتالوں میں زندگی بچانے کے لیے ضروری ادویات سمیت دیگر سہولیات کی عدم دستیابی کی شکایت کی۔

والدین نے ان کی گھر کی دہلیز پر صحت کی بہتر سہولیات پہنچانے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ انہیں اپنے بچوں کے علاج کے لیے اپنے علاقے سے میلوں دور مٹھی میں جانا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تھر میں بچوں کی اموات: سندھ ہائی کورٹ کارپورٹ پرعدم اطمینان

اس حوالے سے کہا گیا کہ’تھر کے ہزاروں شہری کنووں کا آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جبکہ خطرناک موسمی صورت حال کے باوجود کئی میل کا سفر کرکے جانا پڑتا ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ ضلعی سطح پر نصب کیے گئے آر او پلانٹس کی انتظامیہ کو بھی پانی کے حصول لیے دیگر علاقوں کا رخ کرنا پڑ رہا ہے۔

علاوہ ازیں نجی اداروں کی جانب سے لگائے آر او پلانٹس کے ملازمین کو تنخواہیں فراہم نہیں کی گئی جس کی وجہ سے 450 پلانٹس ناکارہ پڑے ہیں۔

آر او پلانٹ کی بندش کے بعد تھر میں مسائل مزید سنگین ہو گئے ہیں تاہم کابینہ کے ممبر کی جانب سے 7 اکتوبر کو تھر میں ریلیف آپریشن کا جائزہ لیا جائے گا۔

تھر: غذائی قلت کے باعث مزید 6 بچے جاں بحق

مقامی صحافیوں کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق صوبائی وزراء مرتضیٰ وہاب، امیتاز احمد شیخ اور سید سردار علی شاہ سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے افسران تھر اور ہسپتال کا دورہ کریں گے اور ڈی سی آفس میں پریس کانفرنس کریں گے۔

تھر میں بچوں کی صحت اور غذا کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ہینڈز کے سربراہ ڈاکٹر شیخ تنویر احمد سمیت ماہرین صحت اور بچوں کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ تھر میں کم عمری میں شادی، بچوں کی غذائی قلت، غربت اور دیگر مسائل نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کے اسباب ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں