سینیٹ کمیٹی کا شعبہ توانائی کو 400 ارب روپے دینے پر زور

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2018
سینیٹ کمیٹی نے رپورٹ میں مختصر مدتی اقدامات کا ذکر کیا — فائل فوٹو
سینیٹ کمیٹی نے رپورٹ میں مختصر مدتی اقدامات کا ذکر کیا — فائل فوٹو

اسلام آباد: توانائی کے شعبے کا خسارہ 8 سو 24 ارب سے تجاوز کرنے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سربراہی میں سینیٹ کمیٹی کے ارکان نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ توانائی کے شعبے میں 400 ارب روپے تک شامل کرے تاکہ گردشی قرضوں کے مسئلے کو کم اور پاور پلانٹس کی بندش سے بچا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز کی سربراہی میں گردشی قرضے سے متعلق سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس طرح کے بحران سے نمٹنے کے لیے مختصر مدتی اقدامات کا ذکر کیا۔

اس رپورٹ میں سخت اقدامات جیسے ریگیسیفائڈ لیکیوئڈ نیچرل گیس (آر ایل این سی) کی بنیاد پر پاور منصوبوں کو ایندھن کی فراہمی کے معاہدوں کا جائزہ لینے کی تجویز دی گئی تاکہ انہیں ’ ضروری ادائیگیوں‘ کے بجائے عام پلان پر لایا جاسکے، جس کے تحت بجلی کی پیداوار نہ کرنے کی صورت میں بھی انہیں معاوضے کی ادائیگی کی جاسکے۔

مزید پڑھیں: بجلی کے نرخ میں اضافے کا امکان، حکومتی منظوری کا انتظار

رپورٹ کے مطابق دو اہم ریگولیٹرز آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے کردار کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور اگر ضرورت ہو تو انہیں ضم کر دینا چاہیے۔

اس رپورٹ کی کچھ تجاویز پہلے ہی سامنے آچکی تھیں جن میں درآمدی ایندھن پر انحصار کو کم کرنا اور ہائیڈرو پاور اور دیگر قابل تجدید ذرائع کے مقامی وسائل کو بڑھانا شامل ہے کیونکہ بجلی کی 63 فیصد پیداوار فوسل ایندھن اور 55 فیصد درآمدی ایندھن سے ہوتی ہے۔

کمیٹی نے سفارش کی کہ پاور کمپنیوں کی نجکاری، بجلی کی فراہمی میں نجی شعبے کی حصہ داری اور تقسیم کار کمپنیوں کو صوبائی حکومتوں کے حوالے کیا جائے۔

اس کے علاوہ یہ بھی تجویز دی گئی کہ قابل تجدید توانائی پالیسی 2006 کو نافذ کرنے کے لیے اس میں 2 سال کے لیے توسیع کی جائے کیونکہ دسمبر 2017 میں اس کے اچانک رکنے سے اس شعبے میں سرمایہ کاری رک گئی ہے۔

کمیٹی کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے نیپرا ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو واپس لینے کا بھی کہا گیا کیونکہ انہوں نے ریگولیٹر کے چار اراکین کے اختیارات کم کرنے اور چیئرمین کو ایک ربڑ اسٹیمپ بنا کر ریگولیٹر کے آزادانہ اور پیشہ وارانہ کام پر سمجھوتہ کیا تھا۔

رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ کاروبار میں اس وقت تک منافع ناممکن ہے جب تک کُل پیداوار کا 25 فیصد حصہ ضائع ہو جائے جس کی وجہ توانائی کے شعبے میں تکنیکی اور تجارتی خسارہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: نیپرا کی پاور فرم کو بجلی کے نرخ میں 36 پیسے بڑھانے کی اجازت

رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ پاور سیکٹر میں (ٹرانسمیشن اور تقسیم) کے نظام میں اس وقت 18.3 فیصد نقصان ہو رہا ہے جبکہ 8 سے 10 فیصد بل کی ادائیگیاں اب تک قابل وصول نہیں ہیں، جس کے نتیجے میں 295 ارب روپے کا فرق ہے جسے صارفین سے وصول کیا جاسکتا ہے یا حکومت ٹیکس دہندگان کے ذریعے اسے حاصل کر سکتی ہے۔

اس کے علاوہ 175 ارب روپے کے ایک بڑے حصے کو ماہانہ بلوں میں صارفین کو دوبارہ چارج کیا جاتا ہے، تاہم اس کے باوجود تقریباً 120 ارب روپے سالانہ کا حکومت کو نقصان ہوتا ہے جسے گردشی قرضوں مین منتقل کردیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جون 2018 میں ختم ہونے والے مالی سال میں کل گردشی قرضہ 15 کھرب 57 ارب روپے تک تھا، جس میں حکومت اور متعلقہ اداروں کے واجب الادا 245 ارب، جاری خسارے کی مد میں 500 ارب، پانچ سال مین نظام کی خرابی کی مد میں 187 ارب، ٹیرف میں تاخیر کی وجہ سے 338 ارب جبکہ ٹیکس ریفنڈز اور بلوں کی اقساط کی مد میں 300 ارب روپے شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں