دیامر بھاشا ڈیم حدبندی تنازع: فریقین سے 15 روز میں جواب طلب

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2018
عدالت عظمیٰ کی وفاق کو بھی رپورٹ پر جواب دینے کی ہدایت — فائل/فوٹو
عدالت عظمیٰ کی وفاق کو بھی رپورٹ پر جواب دینے کی ہدایت — فائل/فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے دیامر بھاشا ڈیم کی اراضی کی حدبندی کے معاملے پر فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 15 روز میں جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے دیامر بھاشا ڈیم کی خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں حد بندی کے معاملے پر سماعت کی، اس دوران حدبندی تنازع کے معاملے پر رپورٹ پیش کی گئی۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں بھی آپ کی حکومت ہے اس معاملے کو حل کریں، مجھے لگتا ہے کہ صرف تاریخ لینے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا حکومت مل بیٹھ کر مسئلہ حل کیوں نہیں کرتے، اس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں میں بھی تنازع موجود ہے۔

اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل گلگت بلتستان نے عدالت کو بتایا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ نہیں ہے، آئین کے آرٹیکل ون میں گلگت بلتستان کے حدود کا تعین نہیں اور یہ پاکستان کی آئینی حدود میں نہیں آتا، جس کی وجہ سے سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار گلگت بلتستان تک نہیں۔

انہوں نے بتایا گلگت بلتستان حکومت مشترکہ مفادات کونسل میں بھی نہیں ہے جبکہ ڈیم کی رائلٹی کا ایشو بھی بن رہا ہے، ڈیم کی تعمیر پر گلگت بلتستان حکومت کو کوئی اعتراض نہیں تاہم عدالت خود طے کرے انہوں نے کیا کرنا ہے، ہمیں اس معاملے پر وقت دے دیں ہم جواب جمع کروا دیں گے۔

مزید پڑھیں: دیامیر بھاشا ڈیم: 14 ہزار سے زائد ایکڑ زمین واپڈا کے سپرد

اس پر چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل گلگت بلتستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ کیس ہم نہیں سن سکتے تو کیا غیر ملکی فورم سنے گا؟ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا تنازع کا حل کون کرے گا؟ گلگت بلتستان کا پاکستان پر حق ہے اور یہ اپنی رائلٹی کا معاملہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتا ہے۔

عدالت میں پیش کردہ رپورٹ پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ اور چیئرمین واپڈا کے مطابق منصوبے کا ایک ٹربائن خیبر پختونخوا اور ایک گلگت بلتستان میں لگے گا۔

بعد ازاں عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل گلگت بلتستان کی مہلت دینے کی استدعا منظور کرتے ہوئے گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا حکومتوں سے 15 روز میں جواب طلب کرلیا، ساتھ ہی وفاقی حکومت کو بھی رپورٹ پر جواب دینے کی ہدایت کردی۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملک میں پانی کی قلت کا نوٹس لیتے ہوئے ملک میں دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کے لیے فنڈ مہم کا آغاز کیا تھا۔

بعد ازاں وزیر اعظم عمران خان بھی چیف جسٹس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے تھے اور انہوں نے بھی عوام سے اس ڈیم میں فنڈز دینے کی اپیل کی تھی۔

اس اپیل کے بعد ملک بھر کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ڈیم فنڈز میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہے ہیں اور اب تک ساڑھے 4 ارب روپے سے زائد رقم جمع ہوچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آج سے ڈیم بنانے کا کام شروع کرنا ہے، وزیراعظم کا قوم سے خطاب

اگر دیامر کے محل وقوع کی بات کی جائے تو چلاس سے 40 کلو میٹر نیچے کی جانب گلگت بلتستان میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر آف دیامر ہے، جہاں 32 دیہات میں 4 ہزار 266 گھر ہیں، جن میں 30 ہزار 350 افراد مقیم ہیں۔

اس ڈیم کی تکمیل کے لیے 37 ہزار 419 ایکڑ زمین درکار تھی، جس میں کاشت کاری، بنجر اور دیگر استعمال کے لیے 19 ہزار 62 ایکڑ سرکاری اور 18 ہزار 357 نجی زمین شامل ہے، تاہم اس منصوبے سے حکومت، کمیونٹی اور کاروباری افراد کی بڑی تعداد متاثر ہوگی۔

تاہم اپریل کے مہینے میں 4500 میگا واٹ کے دیامر بھاشا ڈیم منصوبے کی تکمیل کے لیے بالآخر 18ہزار 357 ایکڑ نجی زمین سے 14 ہزار 325 ایکڑ کا حصہ پاکستان واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے حوالے کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں