پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے مالی معاملات سے واقف منصوبہ بندی کمیشن کے ایک عہدیدار نے ڈان کو شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ سی پیک کے قرضوں کا آغاز 2021 میں ہوگا اور یہ منصوبہ اگلے تین برسوں تک قرض کا جال بچھائے بغیر اپنے عروج پر ہوگا۔

منصوبہ بندی کمیشن کی جانب سے پاکستان پر چین کے قرضوں اور سی پیک کو پاکستان کے لیے ‘قرضوں کے جال’ سے تشبیہ دیئے جانے کے حوالے سے عالمی برادری میں پائے جانے والے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک تفصیلی اعلامیہ جاری کیا گیا۔

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر نے بالی میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا تھا کہ کہ ادارہ تمام قرضوں کے حوالے سے ‘مکمل شفافیت’ کا مطالبہ کرے گا، تاہم اس میں چین کے قرضوں یا سی پیک کے حوالے سے کوئی نام نہیں لیا تھا۔

قبل ازیں آئی ایم ایف کے چیف اکنامسٹ موریس اوبسٹ فیلڈ نے رپورٹرز کو بتایا تھا کہ جب چین انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے قرضے دے رہا ہو تو پاکستان کو ‘زیادہ قرض لینے سے احتیاط کرنا چاہیے جن کی واپسی کی سکت نہ ہو’۔

یہ بھی پڑھیں: مالی بحران کے باعث سی پیک کے مختلف منصوبے تعطل کا شکار

منصوبہ بندی کمیشن کے عہدیدار نے اس کے برعکس کہا تھا کہ سی پیک کو توسیع دی جارہی ہے اوراس کی رفتار کو بھی تیز کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کی ادائیگی 2021 میں شروع ہوگی جو تقریباً 30 سے 40 کروڑ ڈالر سالانہ ہوگی اور 25 برسوں میں مکمل ادائیگی سے قبل 2024-25 کے مالی سال تک بتدریج 3 اعشاریہ 5 بلین ڈالر تک بڑھ جائے گا۔

منصوبہ بندی کمیشن نے اعلامیے میں مزید کہا کہ ‘سی پیک قرضوں کی ادائیگی اور توانائی کے شعبے میں اخراجات کے حوالے سے کوئی اضافی بوجھ نہیں ڈال رہا ہے’ اور اخراجات کے حوالے سے تمام قرضوں سے پاکستانی معیشت کو سرمایہ کاری کی صورت میں فائدہ ہوگا تاہم ان اخراجات کی تعداد یا وقت کے تعین کے حوالے سے وضاحت نہیں کی گئی۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‘موجودہ حکومت سی پیک کے منظور شدہ ڈھانچے کے خدوخال کے مطابق چینی حکومت سے باہمی مشاورت کے ساتھ سی پیک کو توسیع اور رفتار کو تیز کررہی ہیں’ اور سی پیک میں تیسرے فریق کی شمولیت کے لیے طریقہ کار بھی وضع کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں:معاشی صورتحال ابتر ہے، فوری 12 ارب ڈالر درکارہوں گے، اسد عمر

منصوبہ بندی کمیشن کا کہنا ہے کہ سی پیک ایک ‘فلیگ شپ’ منصوبہ ہے اور بیلٹ اینڈ روڑ کا فعال ترین منصوبہ جس میں گزشتہ 4 برسوں میں 28 بلین ڈالر مالیت کے 22 منصوبوں کو شروع کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘منصوبے کو چین کی سری لنکا یا ملائشیا میں بیرونی سرمایہ کاری کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سی پیک کے مالی پہلو اور خدوخال بالکل مختلف ہیں’۔

قرضوں کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ سی پیک کو حکومت سے حکومت کے قرضوں، سرمایہ کاری اور گرانٹ میں تقسیم کیا گیا ہے، انفراسٹرکچر کو بلاسود یا حکومت کے رعائتی قرضوں کے تحت تعمیر کیا جارہا ہے، گوادر پورٹ میں گرانٹ کی بنیاد پر سرمایہ کاری کی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو بندرگاہ کی تعمیر میں کی گئی سرمایہ کاری کی رقم واپس نہیں کرنی۔

توانائی کے منصوبوں کو انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسر (آئی پی پیز) کے تحت چلایا جارہا ہے اور سرمایہ چائنا ڈیولپمنٹ بینک اور چائنا ایگزم بینک کی بیلنس شیٹ پر نجی کمپنیوں سے حاصل کیا گیا ہے اس لیے پاکستانی حکومت کے معاہدوں کے علاوہ تمام قرضے چینی سرمایہ کار برداشت کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی قرض کیلئے باضابطہ طور پر آئی ایم ایف سے درخواست

منصوبہ بندی کمیشن نے واضح کیا کہ پاکستان نے سی پیک کے ذریعے سرمایہ کاری کو سازگار مالی انتظامات کے باعث چنا تھا اور ‘چین نے ایک ایسے وقت میں پاکستان کی ترقی کے لیے قدم بڑھایا تھا جب بیرونی سرمایہ کاری تنزلی کا شکار تھی اور ملک میں بجلی کی کمی اور خراب انفراسٹرکچر کے باعث معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئی تھیں’۔

اعلامیے میں سی پیک کو ‘معاشی بڑھوتری اور پاکستان کی جی ڈی پی کو 2 سے 3 فیصد اضافے کے لیے این انجن سے تعبیر کیا گیا ہے’۔ منصوبہ بندی کمیشن کا کہنا تھا کہ ‘سی پیک نے توانائی کے مسئلے پر قابو پانے، ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر اور شاہراہوں کی تعمیر میں سہولت دی ہے’۔


یہ خبر 12 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں