متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی میں انٹرا پارٹی الیکشن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تنظیم کو تباہی سے بچانا ہے تو پارٹی کو 5 فروری کی پوزیشن پر واپس لانا ہوگا۔

کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ پارٹی تباہی کے راستے پر چل پڑی ہے اور 25 جولائی کے عام انتخابات کے بعد جو نتائج آئے وہ سب سے سامنے ہیں، جس میں 17 نشستیں لینے والی ایم کیو ایم 4 نشستوں تک پہنچ گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا آئندہ امتحان بلدیاتی انتخابات ہیں، لہٰذا اگر تنظیم کے کھوئے ہوئے وقار کو واپس لانا ہے تو تمام کارکنوں اور ذمہ داروں کو عزت و احترام کے ساتھ ان کی 5 فروری کی پوزیشن اور ذمہ داریوں پر بحال کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح پارٹی کو نہیں چلایا جاسکتا، مجھے معلوم ہے ایک اور سازش تیار کی جارہی ہے، بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کا اس سے زیادہ برا حشر ہوگا۔

مزید پڑھیں: ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر برقرار

فاروق ستار نے کہا کہ 23 اگست کو حادثاتی طور پر پارٹی کی سربراہی میں نے لی اور پارٹی کو بچایا لیکن 11 فروری کو مجھ سے یہ سربراہی خالد مقبول صدیقی اور ساتھیوں نے حادثاتی طور پر لے لی اور کارکنوں سے مینڈیٹ نہیں لیا گیا، لہٰذا وقت کا تقاضہ ہے کہ جتنا جلدی ممکن ہو انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا جائے اور موجودہ صورتحال اور بحران سے نکلنے کے لیے کارکنوں سے نئی رائے لی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں ہر سوال کا جواب دینے کو تیار ہوں، میری اس پریس کانفرنس کے نتیجے میں بہادرآباد اور رابطہ کمیٹی کے ساتھیوں کا جواب آئے گا، جس کا جواب دینے کے لیے تیار ہوں۔

فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم میں احتساب کا مطالبہ میرا سب سے بڑا گناہ تھا، مجھے اسی بات پر سزا ملی، ایک فرد واحد نے مجھے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 25 جولائی کے بعد سے میرے کارکنان دربدر ہیں، میں کارکنوں کی عزت کی بحالی کے لیے آج میدان میں اترا ہوں۔

فاروق ستار نے الزام لگایا کہ میری 9 نومبر کی تقریر کی وجہ سے انہیں انتخابات میں ہرایا گیا، کارکنوں نے کہا کہ اگر آپ انتخابات لڑیں گے تو اس میں جان ہوگی، تاہم مجھے علم تھا کہ ایم کیو ایم سے مینڈیٹ چھین لیا جائے گا، لہٰذا میں نے تجویز دی تھی کہ الیکشن سے گریز کرنا چاہیے۔

خیال رہے کہ عام انتخابات 2018 میں این اے 245 سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عامر لیاقت حسین نے ڈاکٹر فاروق ستار کو شکست دی جبکہ این اے 247 سے بھی ڈاکٹر فاروق ستار کو ڈاکٹر عارف علوی نے ہرایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پیچھے ہٹنے والا نہیں پارٹی کو نظریاتی بنانے کے لیے ایک ایک مہاجر کے پاس جاؤں گا اور ایم کیو ایم کو نظریاتی جماعت بناؤں گا۔

فاروق ستار نے کہا کہ حکومت کی پالیسی عوام دشمن ہوگی تو اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے، ایم کیو ایم پاکستان عوامی جماعت ہے، بجلی اور گیس قیمتوں کے بڑھنے پر احتجاج کرنا چاہیئے۔

رہنما ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، ڈر ہے کہ آنے والے دنوں میں ڈالر 200 روپے کا نہ ہوجائے۔

’انٹرا پارٹی انتخابات اکتوبر 2020 میں ہوں گے‘

دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے فاروق ستار کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے انٹرا پارٹی انتخابات اکتوبر 2020 میں ہوں گے۔

فیصل سبزواری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم بہتری کی طرف جارہی ہے۔

اس موقع پر فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ فاروق ستار نے تحفظات کا اظہار کیا ہے، ان کے ساتھ بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ دن قبل ایم کیو ایم کے کنوینیئر خالد مقبول صدیقی کی فاروق ستار سے ملاقات ہوئی تھی تاہم رابطہ کمیٹی کے چند ارکان فاروق ستار سے دوبارہ ملاقات کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم میں چپقلش کارکنان کو پریشان کرسکتی ہے، ایم کیوایم کو صرف اصول نہیں، احسن طریقے سے چلانا چاہتے ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان اختلافات

واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور رابطہ کمیٹی کے درمیان اختلافات 5 فروری کو اس وقت شروع ہوئے تھے جب فاروق ستار کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے لیے کامران ٹیسوری کا نام سامنے آیا تھا، جس کی رابطہ کمیٹی نے مخالفت کی تھی۔

بعدازاں رابطہ کمیٹی اور فاروق ستار کے درمیان کئی مرتبہ مذاکرات کی کوشش کی گئی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئی اور ڈاکٹر فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور 6 دن تک جاری رہنے والے اس تنازعے کے بعد رابطہ کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے فاروق ستار کو کنوینئر کے عہدے سے ہٹا کر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو نیا کنوینئر مقرر کردیا تھا۔

12 فروری کو ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے الیکشن کمیشن کو باضابطہ آگاہ کردیا تھا کہ ڈاکٹر خالد مقبول کو پارٹی کا نیا سربراہ منتخب کرلیا گیا ہے۔

بعد ازاں 18 فروری کو ایم کیو ایم پاکستان فاروق ستار گروپ کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں کارکنان کی رائے سے فاروق ستار ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر منتخب ہوئے تھے۔

تاہم بہادر آباد گروپ کی جانب سے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا اور ڈاکٹر فاروق ستار کو کنوینر ماننے سے انکار کردیا تھا۔

اس کے بعد یہ معاملہ پہلے الیکشن کمیشن پھر اسلام آباد ہائیکورٹ میں گیا تھا، جہاں عدالت نے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا کنوینر برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: این اے 245: فاروق ستار نے عامر لیاقت کی کامیابی چیلنج کردی

عدالتی فیصلے کے بعد معاملات کچھ بہتر ہوئے تھے اور دونوں گروپوں نے انتخابات میں ایک ساتھ حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم عام انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان شہر قائد سے ماضی کی طرح کامیابی حاصل نہیں کرسکی تھی۔

بعد ازاں ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ انہیں پاکستان تحریک انصاف نے پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ہے جس سے متعلق وہ اپنے قریبی دوستوں سے مشورہ کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا تھا کہ 'پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ عارف علوی کے صدر منتخب ہونے کے بعد این اے 247 کی خالی ہونے والی نشست سے میں ضمنی انتخابات میں حصہ لوں۔

اس دعوے کے ایک ہفتے بعد ہی ایم کیو ایم پاکستان کے سابق کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے ذاتی وجوہات کی بنا پر رابطہ کمیٹی سے استعفیٰ دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں