پاکستانی لڑکیاں سماجی رکاوٹوں کے باوجود ملازمتیں حاصل کرنے کیلئے کوشاں

12 اکتوبر 2018
انسا خان اپنے گھر میں مرغیوں کو دانہ ڈال رہی ہے —فوٹو : اے پی
انسا خان اپنے گھر میں مرغیوں کو دانہ ڈال رہی ہے —فوٹو : اے پی

تورو: خیبر پختونخوا کی انسا خان صرف 10 برس کی ہے لیکن اس کے دن مشکلات سے بھرپور ہیں، وہ صبح سویرے اٹھ کر نماز پڑھتی ہے اور قرآن کی تلاوت کرتی ہے جو ان کی زندگی کے خاموش ترین لمحات ہیں۔

خبررساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق اس کے بعد انسا کا دن میں گھر کے کاموں، اسکول اور تعلیم حاصل کرنے میں گزرتا ہے جس نے اس سے کھیلنے کے چند لمحات چھین لیے ہیں۔

اقوام متحدہ 2012 سے ہر سال 11 اکتوبر کو 'لڑکیوں کے عالمی دن' سے منسوب کرتا آرہا ہے، تاکہ دنیا بھر میں لڑکیوں کے حقوق اور انہیں درپیش مسائل سے متعلق آگاہی دی جاسکے۔

دنیا کے اکثر غریب ممالک میں لڑکیوں کی کم عمری میں ہی شادی کردی جاتی ہے اور پاکستان میں بھی اس سے مختلف حالات نہیں ہیں۔

عالمی تنظیم ’گرلز آر ناٹ برائڈز‘ کے مطابق 2017 میں پاکستان میں 20 سے 24 برس کے درمیان کی ایسی تقریباً 19 لاکھ لڑکیاں موجود تھیں، جن کی شادی 18 برس سے پہلے ہوگئی تھی۔

تنظیم کے مطابق بھارت میں یہ تعداد کئی گنا زیادہ ہے اور ایک کروڑ 55 لاکھ لڑکیوں کی شادی کم عمر میں کردی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: خواتین کا عالمی دن: بلوچستان کی لڑکیاں تعلیم میں پیچھے کیوں؟

کم عمری میں ہی بیاہی جانے والی لڑکیوں کی موجودہ تعداد سے متعلق کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں، تاہم بچپن میں شادی کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔

پاکستان میں کم عمر لڑکیوں کے کارنامے بھی قابل ذکر ہیں جن میں سب سے اہم نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی ہیں، جن پر 13 برس کی عمر میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز اٹھانے پر طالبان جنگجوؤں کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا۔

ملالہ کی طرح انسا کا تعلق بھی صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے اور ان ہی کی طرح انسا کو بھی اسکول جانا بہت پسند ہے جبکہ اس کا پسندیدہ مضمون اسلامک اسٹڈیز ہے۔

انسا کے گاؤں تورو میں بجلی کا کوئی بھروسہ نہیں جس وجہ سے اسے اکثر فلیش لائٹ کا سہارا لے کر پڑھنا پڑتا ہے۔

انسا کے والد تاجبر خان کا کہنا تھا کہ ان کی چھوٹی سی بیٹی اکثر ان کے کام میں مدد کرتی ہے، وہ علاقے کے ایک بڑے زمیندار کی زمین پر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔

وہ مویشیوں کو چارہ کھلاتی ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ گھر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتی ہے۔

زمیندار کے کھیت میں تمباکو کی کاشت کی جاتی ہے جو صوبے میں سب سے زیادہ کاشت کی جانے والی فصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہر 7 سیکنڈ میں ایک کم عمر لڑکی کی شادی کردی جاتی ہے: رپورٹ

انسا کے والد اور بڑے بھائی تمباکو کے پودوں سے پتوں کو علیحدہ کرتے ہیں، انسا، اس کی بڑی بہن اور والدہ ان پتوں کو ایک ساتھ سیتی ہیں تاکہ وہ خشک ہو جائیں۔

رواں برس اقوام متحدہ نے اس موقع پر لڑکیوں کی صلاحیتیں بڑھانے پر توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے بیان کے مطابق ’ایک ارب نوجوان افراد میں سے 60 کروڑ لڑکیاں ہیں جو اگلی دہائی تک ورک فورس میں شامل ہو جائیں گی، جن میں سے ترقی پذیر ممالک میں کام کرنے والی 90 فیصد لڑکیاں غیر سرکاری سیکٹر میں کام کرتی نظر آئیں گی۔'

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’اس میں سب سے زیادہ نقصان دیہی علاقوں میں مقیم لڑکیوں کو ہوگا جنہیں اچھے کام تک بہتر رسائی نہیں ہوتی۔'


یہ خبر ڈان اخبار میں 12 اکتوبر 2018 کو شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں