حامد میر کو صحافت میں 30 سال سے زائد کا وقت ہوچکا—فوٹو: فیس بک
حامد میر کو صحافت میں 30 سال سے زائد کا وقت ہوچکا—فوٹو: فیس بک

رواں برس اگست میں پاکستان کے معروف صحافی اور اینکر حامد میر نجی ٹی وی چینل ‘جیو نیوز’ کو خیرباد کہتے ہوئے ایک نئے چینل سے وابستہ ہوگئے تھے۔

اگست میں خبریں سامنے آئی تھیں کہ حامد میر نے جنگ اور جیو نیوز سے 17 سالہ تعلق ختم کرتے ہوئے نئے میڈیا گروپ جی نیوز نیٹ ورک (جی این این) میں شمولیت اختیار کرلی۔

حامد میر کے اس فیصلے پر کئی افراد اور خصوصی طور پر صحافیوں کو حیرت ہوئی تھی۔

حامد میر کے ساتھ ساتھ دیگر کئی اینکرز اور صحافیوں کے حوالے سے بھی خبریں سامنے آئی تھیں کہ وہ بھی جی این این سے منسلک ہوگئے ہیں، ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ مزید کئی بڑے صحافی نئے گروپ کا حصہ بنیں گے۔

تاہم اب محض 2 ماہ بعد ہی اچانک حامد میر نے جی این این کو خدا حافظ کہ کر واپس جیو نیوز کو جوائن کرلیا۔

ملک کے اہم ترین صحافیوں میں شمار ہونے والے حامد میر کی جانب سے صرف 2 ماہ بعد ہی نئے میڈیا گروپ کو چھوڑ کر پرانے میڈیا گروپ میں چلے جانے سے جہاں ان کے پرانے ساتھ خوش دکھائی دے رہے ہیں۔

وہیں کئی عام افراد اور صحافت کے طالب علم ان کے اس فیصلے پر حیرت کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’تبدیلی آگئی ہے‘ حامد میر اور جیو کا ساتھ ختم؟

جی این این کو چھوڑنے اور واپس جیو نیوز کو جوائن کرنے کے حوالے سے خود حامد میر نے بھی اپنی ٹوئیٹ میں تصدیق کی۔

انہوں نے بتایا کہ جی این این میں جانا اور اپرانے ساتھیوں بشمول اپنے بھائی عامر میر کے اس گروپ کو متعارف کرانا اچھا تجربہ رہا، ساتھ ہی انہوں نے جیو نیوز جوائن کرنے پر خوش آمدید کہنے والے ساتھیوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔

تاہم حامد میر نے یہ وضاحت نہیں کی کہ انہوں نے کیوں جیو نیوز کو چھوڑا تھا اور اب کیوں اسے واپس جوائن کیا، البتہ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جی این این کو متعارف کرادیا۔

حامد میر کی جانب سے جی این این کو خیرباد کہہ کر واپس جیو نیوز جوائن کرنے کی تصدیق اسی نیوز چینل کے اینکر منیب فاروقی اور شاہزیب خانزادہ نے بھی اپنی ٹوئیٹس کے ذریعے کی۔

علاوہ ازیں کئی افراد نے بھی حامد میر کی جیو نیوز میں واپسی کے حوالے سے تصدیق کی۔

جس طرح 2 ماہ قبل حامد میر کی جانب سے جیو کو چھوڑے جانے پر کچھ افراد نے حیرت کا اظہار کیا تھا، اسی طرح ان کی جانب سے جی این این کو چھوڑنے پر بھی کچھ افراد حیران نظر آئے۔

ایک صارف نے حامد میر کے جیو نیوز کے پروگرام ‘کیپیٹل ٹاک’ کی تصویر دیتے ہوئے ٹوئیٹ کی کہ ‘ممکن ہے کہ حامد میر کو اپنے بیک سائڈ پر پارلیمنٹ ہاؤس کی کمی محسوس ہو رہی ہو، اس لیے وہ واپس جیو آگئے’۔

عدنان ملک نے ٹوئیٹ کی کہ وہ ایسے نیوز ریڈرز سے معذرت خواہ ہیں، جنہوں نے سوچا ہوگا کہ وہ راتوں رات صحافی بن گئے اور انہوں نے ‘حامد میر رٹرن جیو نیوز’ کا ہیش ٹیگ بھی استعمال کیا۔

صفیان بٹ نامی شخص نے ٹوئیٹ کی کہ حامد میر کی طرح کا کام کرنے والے سیاستدانوں کو ہم ‘لوٹا’ کہتے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ ایسا کام کرنے والوں کو ‘صحافت’ میں کیا کہتے ہیں؟

اسامہ صدیقی نے بھی کچھ ایسا ہی سوال کیا کہ ادارے بدلنے والے صحافی کو کیا کہا جائے؟

کچھ افراد نے حامد میر کی جانب سے جیو نیوز کو جوائن کرنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں گھر واپس آنے کی مبارک باد بھی دی۔

بلال عباس نامی صارف نے ‘گورمے بیکری’ کے اوپر نصب حامد میر کے جی این این کے اشتہار کی تصویر شیئر کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے نوجوانوں کو حوصلہ دیا۔

بلال عباس کا کہنا تھا کہ نوجوان ہمیشہ اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ ایک ادارے کو جلد چھوڑنا اگر ان کی سی وی میں شامل ہوجائے گا تو کیا ہوگا؟ تاہم اب نوجوانوں کو بھی سیکھنے کا موقع ملے گا۔

خیال رہے کہ حامد میر نے اپنے 30 سالہ صحافتی کیریئر میں جنگ اور جیو نیوز میں کم سے کم 2 دہائیوں تک اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

حامد میر نے جہاں صحافت کا آغاز ہی روزنامہ جنگ سے کیا تھا وہیں انہوں نے اپنا عروج بھی دیکھا اور انہوں نے اسی ادارے سے وابستہ رہ کر متعدد عالمی و ملکی شخصیات کے خصوصی انٹرویوز کیے۔

حامد میر نے نہ صرف اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا بلکہ انہوں نے افغان جنگ سمیت اسرائیل و لبنان جنگ پر بھی تحقیقاتی رپورٹس بنائیں۔ حامد میر کی تحقیقاتی خبریں اور کالم ملک کے اہم ایوانوں سمیت عوام میں زیر بحث رہے ہیں۔

حامد میر نے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سمیت سابق صدور آصف علی زرداری، پرویز مشرف سمیت دیگر اعلیٰ حکومتی و ریاستی عہدیداروں کے انٹرویوز بھی کیے۔

حامد میر نے غیر ملکی سیاستدانوں کے انٹرویوز بھی کیے جب کہ انہوں نے 2010 میں آنے والے سیلاب کے دوران خیبرپختونخوا سے لے کر پنجاب اور سندھ سے لے کر بلوچستان تک کا دورہ کیا۔

حامد میر کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے کے حوالے سے بھی نڈر صحافی کے طور پر جانا جاتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں