ڈان کا نام استعمال کرکے عوام کو ایک مرتبہ پھر جعلی خبر سے گمراہ کرنے کی کوشش

اپ ڈیٹ 14 اکتوبر 2018
ڈان ڈاٹ کام کے نام سے زیر گردش جھوٹی خبر کا اسکرین شاٹ
ڈان ڈاٹ کام کے نام سے زیر گردش جھوٹی خبر کا اسکرین شاٹ

ڈان ڈاٹ کام کو بدنام کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر ڈان کی ویب سائٹ کی طرز پر بنایا گیا ایک اور جعلی اسکرین شاٹ منظر عام پر آگیا۔

اس جعلی خبر میں عوام الناس اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو گمراہ کرنے کے لیے یہ ظاہر کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کی رہنما امید سے ہیں اور یہ جعلی دعویٰ بھی کیا گیا کہ 'ڈان نیوز' نے ان کی میڈیکل رپورٹس بھی حاصل کر لی ہیں۔

مزید پڑھیں: ڈان کی ادارتی پالیسی کے خلاف درخواست مسترد

تاہم پروپیگنڈے کی غرض سے تیار کردہ اس تصویر میں ناصرف من گھڑت اور جھوٹی خبر کو شائع کیا گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خبر کا انداز بھی 'ڈان' کے اصل نیوز آرٹیکل سے یکسر مختلف ہے۔

واضح رہے کہ جعلی پوسٹ بنانے والے فوٹو ایڈیٹنگ سوفٹ ویئر کے ذریعے ڈان ڈاٹ کام کی نقل تیار کرنے میں ماہر ہیں تاہم وہ ڈان کے اسٹائل گائیڈ اور معیار کے مطابق مکمل جملے بنانے کی قابلیت نہیں رکھتے اور وہ ایک سطر سے لمبی خبر بنانے کے بھی ماہر نہیں۔

مستقبل میں عوام اور حکام کو اس طرح کی غلط خبر کے جال میں پھنسنے سے بچانے کے لیے ہم یہاں چند اہم باتیں درج کر رہے ہیں جن کی بدولت عوام باآسانی یہ پہچان سکتے ہیں کہ یہ خبر ڈان ڈاٹ کام کی ہے یا کوئی جعلی اسکرین شاٹ ہے۔

مذکورہ پوسٹ کو ڈان کے معیار اور اسٹائل سے مطابقت نہ رکھنے پر اس کے جعلی ہونے کا باآسانی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر سرخی کے کئی الفاظ اور متن کی ابتدا میں استعمال کیے گئے بڑے حروف تہجی کے الفاظ ڈان ڈاٹ کام کے استعمال کردہ اسٹائل کے برخلاف ہیں جس کو ویب سائٹ میں موجود کسی بھی اسٹوری میں دیکھا جاسکتا ہے۔

مزید برآں، انگریزی گرامر کے اصول کے مطابق کسی بھی جملے کا ابتدائی لفظ بڑے حرف سے شروع ہوتا ہے، جس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

ڈان کا کسی بھی شخصیت کے تعارف کا اسٹائل ان کے متعلقہ دفتر، عہدہ یا ذمہ داری سے ہوتا ہے۔

ڈان مخفف کے استعمال سے قبل پہلی مرتبہ پورے الفاظ تحریر کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ڈان ابتدائی پیرا میں پاکستان کرکٹ بورڈ لکھنے کے بعد (پی سی بی) بطور مخفف استعمال کرتا ہے۔

ڈان کی اصل خبر کی شناخت ٹوئٹر برڈ اور پرنٹ آئکن سے بھی کی جا سکتی ہے—
ڈان کی اصل خبر کی شناخت ٹوئٹر برڈ اور پرنٹ آئکن سے بھی کی جا سکتی ہے—

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈان ڈاٹ کام کی کسی بھی خبر پر کلک کر کے آپ کو یہ اندازہ ہو گا کہ ٹوئٹر برڈ اور پرنٹ کے آئکن اس سے بالکل مختلف ہیں جو اس پوسٹ میں دکھائے گئے ہیں۔

ڈان کی خبر میں ٹوئٹر برڈ واضح ہوتا ہے اور پرنٹر کے آئکن میں دو ڈاٹ یا نقطے ہوتے ہیں لیکن ممکنہ طور پر فوٹو شاپ کے ذریعے تیار کردہ اس تصویر میں یہ غلطیاں بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ڈان اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ کی اطلاعات

صرف یہی نہیں بلکہ مذکورہ جعلی پوسٹ میں خبر کا انداز بھی ڈان کی اسٹائل گائیڈ سے مطابقت نہیں رکھتا اور جملے بنانے میں کی گئی غلطیوں کی بھی درج ذیل تصویر میں سرخ لکیر سے نشاندہی کی گئی ہے۔

جعلی خبر کے اسکرین شاٹ میں غلطیوں کی سرخ لکیر سے نشاندہی کی گئی ہے
جعلی خبر کے اسکرین شاٹ میں غلطیوں کی سرخ لکیر سے نشاندہی کی گئی ہے

اس کے علاوہ یہ کہ مذکورہ پوسٹ میں خبر کا ذریعہ ڈان نیوز بتایا گیا ہے لیکن ہم کبھی بھی ڈان نیوز کو ذرائع کے طور پر استعمال نہیں کرتے بلکہ ہمارے ہاں ڈان سے مراد اخبار کی سورس یا رپورٹر ہے، ڈان ڈاٹ کام سے مراد ویب رپورٹر جبکہ ڈان نیوز ٹی وی سے مراد ٹیلی ویژن رپورٹ ہے اور ان تمام ذرائع کو ہم اطالوی انداز میں تحریر کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ آخری بات یہ ہے کہ جھوٹی خبر کے اسکرین شاٹ میں کوئی بھی پیراگراف نہیں اور ڈان ڈاٹ کام کی خبر میں ایسا ہرگز نہیں ہوتا، ہم پیرا گراف کا خاص خیال رکھتے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ ڈان کو بدنام اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لیے ڈان ڈاٹ کام کے نام سے جعلی خبر کا اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا ہو۔

گزشتہ سال جنوری سے اپریل 2017 کے درمیان ڈان ڈاٹ کام پر متعدد سائبر حملے کیے گئے جس کا مقصد اس کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ساتھ ساتھ اسٹاف کے اکاؤنٹس کو بھی ہیک کرنا تھا۔

اس کے بعد رواں سال ڈان کو بدنام کرنے کے لیے جعلی خبریں پھیلانے کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔

رواں سال جون میں فیس بک کی ایک پوسٹ سوشل میڈیا میں گردش کر رہی تھی جس میں عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ خطے کی طاقتوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو پہلے ہی باقاعدہ سرحد تسلیم کرچکا ہے۔

مذکورہ جعلی خبر میں افغان قومی سلامتی امور کے مشیر حنیف اتمار اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تصویر دی گئی تھی اور جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا کہ دونوں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ڈیورنڈ لائن کی شناخت پر گفتگو کی گئی۔

مزید پڑھیں: فیصل واڈا کے حوالے سے ڈان کے نام سے جھوٹی خبر چلانے کی کوشش ناکام

پھر اگست میں دوبارہ یہی ناکام کوشش کی گئی جس میں ڈان ڈاٹ کے نام سے یہ جعلی خبر سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فیصل واوڈا نے میئرکراچی وسیم اختر کے خلاف دائر کرپشن کا مقدمہ واپس لے لیا۔

تصویر میں جعلی خبر کی سرخی اور متن کو دکھایا گیا اور اس کو ڈان ڈاٹ کام سے مشابہت دی گئی لیکن جعل سازوں کو اس موقع پر بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں