کراچی میں فالودہ فروش کے بعد ایک رکشہ ڈرائیور کے اکاؤنٹ میں 3 ارب روپے کی ٹرانزیکشن کا انکشاف ہوا ہے۔

شہر قائد کے علاقے کورنگی سے تعلق رکھنے والے محمد رشید کا نام اس وقت سامنے آیا جب ان کے نجی بینک اکاؤنٹ میں 3 ارب روپے کی موجودگی کے بارے معلوم ہوا۔

محمد رشید کے بینک اکاؤنٹ میں اتنی بڑی ٹرانزکیکشن کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر منی لانڈرنگ کیسز کی تحقیقات کے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے انہیں طلب کیا، جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: فالودہ فروش کے بعد ڈرائیور بھی راتوں رات کروڑ پتی بن گیا

اس حوالے سے محمد رشید نے ایک نجی چینل کو بتایا کہ ’مجھے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب دفتر میں بلایا گیا تھا، جہاں مجھے میرے بینک اکاؤنٹ کا ریکارڈ دکھایا گیا‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’ایف آئی اے نے مجھے بتایا کہ میرے بینک اکاؤنٹ کے ذریعے کوئی 3 ارب روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی، اس پر میں نے انہیں بتایا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایک ہی بینک اکاؤنٹ اس وقت کھولا تھا جب میں 2004 میں ایک نجی کمپنی کا ملازم تھا‘۔

محمد رشید نے کہا کہ ’یہ ایک سیلری اکاؤنٹ تھا اور میں نے صرف 15 دن کے لیے اس کمپنی میں کام کیا، پھر میں نے اپنا کام شروع کردیا، اس کے علاوہ مزید کسی تفصیلات سے میں لاعلم ہوں‘۔

ایف آئی اے کی جانب سے جب ان نے کمپنی کا نام پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں اس کا نام یاد نہیں اور بس انہیں یہ یاد ہے کہ ان کا دفتر طارق روڈ کے قریب تھا۔

محمد رشید کو اعتماد ہے کہ وہ ایف آئی اے حکام کو اپنی بے گناہی کے بارے میں قائل کامیاب ہوگئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'ارب پتی' فالودہ فروش فاقہ کشی پر مجبور

انہوں نے کہا کہ ’میں اور میرے اہل خانہ ایک کرائے کہ مکان میں رہتے ہیں اور مشکل سے ہمارا 2 وقت کا گزایا ہوتا ہے اور میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ اتنی بڑی رقم میرے اکاؤنٹ میں ہوسکتی ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ’ مجھے شک ہے کہ میرا سیلری اکاؤنٹ اس طرح کی تمام ٹرانزیکشن میں استعمال کیا گیا‘۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ ستمبر سے ایف آئی اے منی لانڈرنگ کیسز کی تحقیقات کر رہی ہے اور اس دوران کئی مشکوک اکاؤنٹس کا انکشاف ہوا، جس میں کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں ایک فالودہ فروش کا نجی بینک اکاؤنٹ تھا اور اس میں 2 ارب سے زائد روپے کی موجودگی کا پتہ چلا تھا۔


یہ خبر 14 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Oct 14, 2018 06:21pm
اس طرح کی بہت سی خبریں شائع ہورہی ہیں مگر ان تمام خبروں میں کسی بھی بینک کا نام نہیں دیا جارہا۔ آخر کیوں!