کراچی بار ایسوسی ایشن (کے بی اے) نے شہر بھر کی تمام ذیلی عدالتوں میں کل قانونی کارروائیوں کا مکمل بائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیا۔

بائیکاٹ کا اعلان سپریم جوڈیشل کونسل کی تجویز پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینیئر جج جسٹس شوکت صدیقی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف کیے جانے والے احتجاج میں سامنے آیا۔

کے بی اے کے صدر سید حیدر امام رضوی کا کہنا تھا کہ بائیکاٹ کا فیصلہ بار ایسوسی ایشن کی مینیجنگ کمیٹی کے اجلاس میں متفقہ طور پر لیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے جنرل باڈی کے اجلاس میں فیصلہ کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹادیا

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی سنگین نوعیت کا معاملہ ہے جس نے عدلیہ کی آزادی پر سوالات اٹھا دیئے ہیں’۔

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ملک کے اہم خفیہ اداروں کے خلاف متنازع تقریر کے معاملے پر عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی۔

خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج ہیں جن کے خلاف ملک کے اہم اداروں کے خلاف متنازع بیان دینے کے معاملے میں تحقیقات جاری تھیں۔

صدر مملکت عارف علوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش کی منظوری دیتے ہوئے جسٹس چوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

متنازع تقریر

یاد رہے کہ 21 جولائی کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان کی مرکزی خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) عدالتی امور میں مداخلت کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: پاک فوج کا جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ

انہوں نے کہا تھا کہ ’خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے ہمارے چیف جسٹس تک رسائی حاصل کرکے کہا تھا کہ ہم نے نواز شریف اور ان کی بیٹی کو انتخابات تک باہر نہیں آنے دینا‘۔

اپنے خطاب کے دوران بغیر کسی کا نام لیے انہوں نے الزام لگایا کہ ’مجھے پتہ ہے سپریم کورٹ میں کس کے ذریعے کون پیغام لے کر جاتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا احتساب عدالت پر ایڈمنسٹریٹو کنٹرول کیوں ختم کیا گیا‘۔

اس کے بعد 22 جولائی کو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے متنازع بیان کا نوٹس لے لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ریاستی اداروں پر الزامات: جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو شوکاز نوٹس جاری

چیف جسٹس نے واضح کیا تھا کہ ’پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ عدلیہ پر کوئی دباؤ نہیں‘، تاہم انہوں نے معاملے کا جائزہ لینے کا عندیہ بھی دیا تھا۔

22 جولائی کو ہی پاک فوج نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے ریاستی ادارے پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

جس کے بعد یکم اگست 2018 کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریاستی اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کا عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا الزام

خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں 2 ریفرنسز زیر التوا ہیں، جن میں ایک ریفرنس بدعنوانی سے متعلق ہے، جو کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے ایک ملازم کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف پہلا ریفرنس سی ڈی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر انور علی گوپانگ نے دائر کیا تھا جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج نے اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین و آرائش کے لیے 80 لاکھ روپے خرچ کیے حالانکہ وہ یہاں یہ رقم خرچ کرنے کے حق دار نہ تھے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف دوسرا ریفرنس گزشتہ برس ہونے والے فیض آباد دھرنے میں پاک فوج کے کردار کے بارے میں ان کے ریمارکس سے متعلق ہے، جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے سوالات اٹھائے تھے، یہ ریفرنس ایڈووکیٹ کلثوم خالق نے دائر کیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے دونوں ریفرنسز کو کھلی عدالت میں سننے کی درخواست دی تھی جس پر کارروائی ابھی جاری تھی۔

رواں سال 21 جولائی کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریب سے خطاب کیا تھا، اس خطاب میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی عدلیہ کے امور میں مداخلت کررہی ہے، خفیہ ادارے والے عدالت کے بینچ بنانے کے معاملے میں مداخلت کررہے ہیں۔

یہ بات جسٹس صدیقی نے اس وقت کہی جب شریف خاندان کی پاناما اپیلوں پر ہائیکورٹ میں سماعت ہورہی تھی اور بینچ بھی تبدیل ہوا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں