سپریم کورٹ نے دہشت گردی کے الزامات میں فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 4 ملزمان کی اپیلیں سماعت کے لیے منظور کرلیں۔

اپیلوں کی سماعت جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

عدالت عظمیٰ نے ملزمان کے وکلا کو ٹرائل کورٹ کی ریکارڈ کے جائزے کی اجازت بھی دے دی۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ریکارڈ دکھانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ملزمان کے وکلا ریکارڈ ایڈیشنل اٹارنی کے آفس میں دیکھ سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 7 ملزمان کی سزائے موت معطل

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ وکلا ریکارڈ دیکھ کر تیاری کر کے آئیں، تیاری نہ ہوئی تو نقصان آپ کے موکل کا ہی ہوگا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث کچھ ریکارڈ نہیں دکھا سکتے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آج کا حکم مجموعی ہے لیکن آئندہ کیس علیحدہ علیحدہ سنیں گے۔

کیس کی مزید سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی گئی۔

یاد رہے کہ سزائے موت کے خلاف اپیلیں اسماعیل خان، وسیم شاہ، لیاقت علی اور سید نبی کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ : فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مزید 3 ملزمان کی سزائے موت معطل

رواں سال 22 جنوری کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے ملزمان کی اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے سزاؤں پر عمل درآمد روک دیا تھا اور فریقین کو نوٹسز جاری کیے تھے۔

18 ستمبر کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے 4 ملزمان کو ملنے والی موت کی سزاؤں پر عملدرآمد عبوری طور پر روک دیا تھا۔

19 ستمبر کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مزید 3 ملزمان کی سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کا حکم دے دیا تھا۔

26 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں سے سزایافتہ 2 ملزمان کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا حکم دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: عدالت کا 3 مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کا حکم

واضح رہے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں سے اب تک دہشت گردی میں ملوث کئی مجرموں کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے، جن میں سے کئی افراد کو آرمی چیف کی جانب سے دی گئی توثیق کے بعد تختہ دار پر لٹکایا بھی جاچکا ہے۔

جنوری 2015 میں پارلیمنٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم منظور کرکے فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں توسیع کرتے ہوئے دہشت گردوں کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی منظوری دی تھی، جب کہ پہلے فوجی عدالتوں کو صرف فوجی اہلکاروں کے جرائم کی پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 کے تحت سماعت کا اختیار تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں