سپریم کورٹ کے جسٹس عظمت سعید شیخ نے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس میں ریمارکس دیے قومی احتساب بیورو (نیب) کی تحقیقات پر آنکھیں بند کروانے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس کی سماعت کی، اس دوران بحریہ ٹاؤن کے وکیل اعتراز احسن، پراسیکیوٹر جنرل نیب پیش ہوئے، تاہم سندھ حکومت کا کوئی نمائندہ وکیل عدالت میں حاضر نہیں ہوا۔

سماعت کے دوران اعتزاز احنس نے بتایا کہ عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کو زمین کی از سر نو الاٹمنٹ کا حکم دیا، فیصلے میں کہا گیا کہ قیمت کا تعین عمل درآمد بینچ کرے گا جبکہ بحریہ ٹاؤن کو خرید و فروخت سے بھی روک دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’بحریہ ٹاؤن اچھا منصوبہ ہے لیکن اِس میں جو کچھ ہوا اُس پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے‘

انہوں نے بتایا کہ عدالت نے 3 ماہ میں ٹیم کو تحقیقات کرکے ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا جبکہ نظر ثانی درخواست میں نیب کو آزادانہ تحقیقات کا حکم دیا، اس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ عملدرآمد بینچ کا نیب کی کارروائی سے کوئی تعلق نہیں۔

عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا تحقیقات مکمل ہوگئیں، جس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف چار تحقیقات زیر التوا ہیں، عدالت نے عبوری حکم سے تحقیقات روک دی تھیں۔

اس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ نیب کو حکم نہیں دیں گے، صرف فیصلے پر عمل کروائیں گے، اس پر پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ عدالت کو ہر 15 دن میں پیش رفت رپورٹ دیں گے۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ نیب کے حوالے سے آنکھیں بند نہیں کرسکتے، نیب کی تحقیقات پر آنکھیں بند کرانے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ اگلی تاریخ سے پہلے وکلا اس معاملے کا حل بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کو کتنے پیسے دینے چاہئیں، وہ قیمت نہ بتائیں جو ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ( ایم ڈی اے) کے ایک افسر نے بتائی تھی، جس افسر کو نیب نے جیل بھیجا تھا۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر آپ کی تجاویز معقول ہوئیں تو عدالت غور کرے گی۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 14 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس کے بعد مزید تاریخ نہیں دی جائے گی۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ سندھ حکومت اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی بھی 14 نومبر تک ریکارڈ دے، اگر نہیں دیا تو نیب پراسیکیوٹر سے ریکارڈ منگوائیں گے۔

خیال رہے کہ 4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے بحریہ ٹاؤن اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے اور 3 ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کو اراضی کا تبادلہ خلاف قانون تھا، لہٰذا حکومت کی اراضی حکومت کو واپس کی جائے جبکہ بحریہ ٹاؤن کی اراضی بحریہ ٹاؤن کو واپس دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی:الاٹمنٹ غیر قانونی قرار، پلاٹس کی فروخت روکنے کا حکم

عدالت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔

بعد ازاں اس معاملے پر نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئیں تھی، جس پر چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کی تھی۔

تاہم کچھ سماعتوں کے بعد بحریہ ٹاؤن، رہائشیوں، پراپرٹی ڈیلرز اور سندھ حکومت کی جانب سے نظرثانی اپیلیں واپس لینے پر عدالت نے معاملہ نمٹا دیا تھا اور عملدرآمد بینچ تشکیل دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں