دنیا کی سب سے بڑی سرچ انجن ‘گوگل’ نے اعتراف کیا ہے کہ کمپنی نے چین کے لیے ایک علیحدہ اور سینسرڈ سرچ انجن بنانے میں مصروف ہے۔

یہ اعتراف گوگل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) سندر پچائی نے کیا ہے، جنہوں نے پہلے ان خبروں کو مسترد کیا تھا۔

گزشتہ ہفتے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ گوگل کے چیف پرائیویسی آفیسر نے امریکی سینیٹ کے آگے کمپنی کے خفیہ منصوبے ’ڈریگن فلائی‘ پر کام کرنے کا اعتراف کیا ہے، تاہم کمپنی کے سی ای اور سندر پچائی نے اس حوالے سے بتانے سے گریز کیا تھا۔

تاہم اب گوگل نے اس منصوبے کا اعتراف کیا ہے۔

ان گیجٹ کے مطابق ایک سمٹ سے خطاب کے دوران سندر پچائی نے اعتراف کیا کہ کمپنی نے ‘ڈریگن فلائی’ نامی چین کے لیے سرچ انجن کا منصوبہ تیار کیا۔

گوگل کے سی ای او کے مطابق اس سینسرڈ سرچ انجن کو بنانے کا مقصد چین میں پابندی کا سامنا کرنے والی ویب سائٹس کو گوگل پر تلاش کرنے پر بھی سامنے نہ لانا ہے۔

سندر پچائی نے اعتراف کیا کہ ان کی کمپنی اس منصوبے پر کام کر رہی ہے اور انہوں نے بتایا کہ اس کی تیاری بہترین طریقے سے جاری ہے۔

سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس منصوبے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ’ہم اس سے متعلق 99 فیصد سوالات کا جواب دے سکیں گے، گوگل تمام افراد کو معلومات فراہم کرنے کے اپنے منشور پر عمل پیرا ہے تاہم یہ ملک کے قوانین کی بھی پاسداری کرے گا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چین میں دنیا کی 20 فیصد آبادی رہتی ہے اور گوگل کی یہاں غیر موجودگی کا مطلب اس پلیٹ فارم کا بڑی تعداد میں لوگوں سے دور ہونا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ گوگل کئی امور میں چین میں عوام کو دستیاب معلومات سے بہتر معلومات فراہم کرسکتا ہے جیسے کینسر کے علاج کے حوالے سے معلومات جس کے بارے میں لوگ کہیں سے غلط معلومات بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

گوگل کے سی ای او کا کہنا تھا کہ کمپنی نے اپنے چین سے باہر نکلنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی اور چین میں دوبارہ داخل ہونے کے لیے اسے بہترین مارکیٹ سمجھا۔ ’ہم جاننا چاہتے تھے کہ ہم چین میں ہوں تو کیسا رہے گا، جس کی وجہ سے ہم نے اس منصوبے کو اندر ہی اندر تیار کیا‘۔

انہوں نے سینسرڈ انجن کی لانچنگ کے حوالے سے کوئی اطلاع نہیں دی تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ اگلے 6 سے 9 ماہ میں تیار ہوجائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں