ضمنی انتخابات میں نتائج مرتب اور ارسال کرنے کا عمل بہتر رہا، فافن

اپ ڈیٹ 17 اکتوبر 2018
ضمنی انتخابات میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 54 فیصد جبکہ مرد ووٹرز کا 44 فیصد کم رہا—فائل فوٹو
ضمنی انتخابات میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 54 فیصد جبکہ مرد ووٹرز کا 44 فیصد کم رہا—فائل فوٹو

اسلام آباد: فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات کے دوران نتائج مرتب کرنے کے نظام میں 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے مقابلے میں خاصی بہتری دیکھنے میں آئی۔

14 اکتوبر کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 35 حلقوں پر ہونے والے انتخابات میں ٹرن آؤٹ عام انتخابات سے کہیں زیادہ کم رہا، تاہم ووٹوں کی گنتی اور ریٹرننگ افسران کے نتائج مرتب اور ارسال کرنے کے عمل میں شفافیت اور اچھی کارکردگی دکھائی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی-40 کے علاوہ تمام حلقوں میں عبوری نتائج رات 2 بجے کی ڈیڈلائن سے قبل ہی مکمل کرلیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ضمنی انتخابات: قومی اور صوبائی اسمبلی کی 35 نشستوں پر پولنگ

انتخابی عمل کا جائزہ لینے کے لیے فافن نے ایک ہزار 2 سو 96 مرد اور 4 سو 41 خواتین سمیت مجموعی طور پر ایک ہزار 7 سو 37 انتخابی مبصرین تعینات کیے تھے، جنہوں نے قومی اسمبلی کے 11 اور صوبائی اسمبلی کے 24 حلقوں کے 4 ہزار 38 پولنگ اسٹیشنز پر انتخابی عمل کا جائزہ لیا۔

رپورٹ کے مطابق عام انتخابات کے ٹرن آؤٹ کے مقابلے میں ضمنی انتخابات میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 54 فیصد جبکہ مرد ووٹرز کا 44 فیصد کم رہا۔

تاہم تمام حلقوں میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے زائد رہا جو نتائج تسلیم کیے جانے کے لیے لازمی حد ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 35 حلقوں میں کل 3 سو 74 امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا جس میں 139 امیدوار مختلف 27 سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کررہے تھے اور دیگر 2 سو 35 افراد نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا۔

مزید پڑھیں: انتخابات میں دھاندلی کرنے کے 9طریقے

ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن نے 21 ہزار 7 سو 83 پولنگ بوتھ پر مشتمل 7 ہزار 4 سو 89 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے جبکہ ان تمام حلقوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد 92 لاکھ 83 ہزار 74 تھی۔

واضح رہے کہ عام انتخابات کے مقابلے میں ضمنی انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں 42 ہزار 8 سو 10 ووٹرز کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

اس کے علاوہ ضمنی انتخابات میں فافن مبصرین کو انتخابی عمل کا مشاہدہ کرنے کے واقعات محض ایک فیصد جبکہ گنتی کا عمل دیکھنے سے روکنے کے 6 فیصد واقعات رونما ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات میں 'دھاندلی' کی تحقیقات کے لیے 30 رکنی کمیٹی قائم

تاہم ایک سو 46 پولنگ اسٹیشنز پر بیلٹ کی رازداری کا خیال نہیں رکھا گیا اور ان حلقوں میں پولنگ عملے نے غیر متعلقہ افراد کو بوتھ کے پاس موجود ہونے سے نہیں روکا جبکہ 8 سو 84 پولنگ اسٹیشنز میں مہر لگانے کو چھپانے والی اسکرین اس طرح لگائی گئیں تھی کہ دوسرے باآسانی اسے دیکھ سکتے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں