قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے دوران حراست انہیں سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف ایوان میں پہنچے تو مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے نعرے بازی کی جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن شازیہ مری نے اسپیکر سے خصوصی اجلاس کو باقاعدہ طور پر جاری رکھنے کا مطالبہ کیا جس کو منظور کیا گیا۔

قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اپنے خطاب میں پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر اسپیکر کا شکریہ ادا کیا اور آرڈر کے اجرا پر اپوزیشن بالخصوص بلاول بھٹو، ایم ایم اے، اے این پی، بلوچستان کے اراکین حاصل بزنجو سمیت تمام اپوزیشن اراکین کا بھی شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ شاید یہ تاریخ کا جبر ہے یا تاریخ رقم کی جارہی ہے کہ منتخب اپوزیشن لیڈر کو کسی جرم کے بغیر گرفتار کیا گیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ احتساب کی چیرہ دستیاں اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور نیب کا جو ناپاک اتحاد ہے اس پر بات کروں گا۔

'پی ٹی آئی اور نیب کا چولی دامن کا ساتھ ہے'

ان کا کہنا تھا کہ میں نے الیکشن مہم کے دوران بھی کہا تھا کہ پی ٹی آئی اور نیب کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور عمران خان چوری کے مینڈیٹ کے وزیراعظم ہیں اور 13 مئی کو مجھ سمیت مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کرا دیئے گئے۔

شہباز شریف نے کہا کہ حوالات اور نیب کے عقوبت خانوں میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو ڈالا گیا جو پی ٹی آئی اور نیب کا گٹھ جوڑ تھا اور شیخ رشید نے کہا تھا کہ شہباز شریف جیل کی ہوا کھائے گا تو یہ بات انہوں نے ایسے نہیں کہی ہوگی۔

'میری گرفتاری کیلئے 5 یا 6 جولائی کو آرڈر تیار تھے'

ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے لیے 5 یا 6 جولائی کو آرڈر تیار تھے لیکن کیوں دیر ہوئی یہ وقت پر معلوم ہوگا لیکن ضمنی انتخابات سے قبل یہ کیا گیا۔

صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ عام انتخابات دھاندلی زدہ تھے اور جہاں پر عمران خان نے جو سیٹیں چھوڑیں وہاں ہم نے کامیابی حاصل کی اور عام انتخابات کے فوری بعد ہونے والے انتخابات میں اتنی بڑی تبدیلی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ انتخابات صحیح تھے یا یہ انتخابات صحیح ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب عدالت کے فیصلے کا صفحہ 170 خود پکار پکار کر کہتا ہے کہ نواز شریف کے خلاف کوئی کرپشن کا مقدمہ نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی بیٹی کے سامنے گرفتاری دینے آجاتے ہیں اور اس طرح کا موقع کبھی نہیں آیا ہوگا کہ ایک باپ کے سامنے بیٹی اور ایک بیٹی کے سامنے باپ گرفتار ہوئے ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف اور ان کی بیٹی کی سزا کو معطل کردیا یہ سب کچھ کیا ہے اور اسپیکرکو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کی عزت کے لیے اقدامات کریں۔

شہباز شریف نے کہا کہ میں یہاں رونے دھونے نہیں آیا لیکن یہ کہنا کہ 50 لوگوں کو گرفتار کرنے سے کچھ نہیں ہوگا تو ان کے نام بتا دیے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں یہاں بعض چونکا دینے والے سوالات سامنے رکھنے آیا ہوں اور یہاں قانون کا راج ہوگا یا جنگل کا قانون ہوگا اس کا فیصلہ یہ اراکین کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ نیب میں 24 گھنٹے تالے لگے رہتے ہیں اس کی مجھے کوئی پرواہ نہیں لیکن میں نے وہاں دیکھا کہ ایک بزرگ جو ٹھیک طرح چل نہیں پارہے تھے اور پروفیسرز کو بھی ہتھکڑیاں لگائی ہوئی تھیں، پاکستان میں سیاست دانوں کو تو ہتھکڑیاں لگ جاتی ہیں لیکن اساتذہ کو بھی اس طرح کے سلوک کا سامنا ہے۔

شہباز شریف نے نیب کے حوالے سے کہا کہ مجھ سے سوال کیا گیا کہ یہ جو آشیانہ اقبال ہے اس میں آپ کا نام کرپشن میں نہیں ہے، آپ نے کامران کیانی جو سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے چھوٹے بھائی ہیں، جن کو آپ نے یہ ٹھیکا دینا چاہا تاکہ آپ جنرل کیانی کو خوش کر سکیں جو بے بنیاد الزام تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کوئی الزام ہے کہ کرپشن نہیں بلکہ سیاسی فائدے کے لیے جنرل کیانی کو خوش کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے جواب دیا کہ میجر (ر) کامران کیانی سے پہلی مرتبہ 2008 میں جب پی پی پی کے ساتھ اتحادی حکومت بن رہی تھی اس وقت ملاقات ہوئی تھی۔

سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ جب میں جلاوطنی سے واپس آکر بعد میں انچارج سنبھالا تو لاہور میں رنگ روڑ کا کام جاری تھا جو سابق حکومت نے شروع کیا تھا اور اس پروجیکٹ کا ٹھیکا کامران کیانی کو پچھلی حکومت نے دیا تھا اور یہ ٹھیکا صحیح تھا یا نہیں پتا لگانا نیب کا کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس وقت جنرل کیانی سے بات کی اور کہا کہ میں نے آپ کے چھوٹے بھائی سے کہا ہے کہ آپ کو اپنی عزت پیاری نہیں تو اپنے بڑے بھائی کی عزت کا خیال رکھیں جو آرمی چیف ہیں اور انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اپنے بھائی کو پالا ہے اور آپ انہیں وارننگ دیں اور ٹھیکے میں کوئی مسئلہ اور منسوخ کرنا ہو تو کر دیں۔

انہوں نے کہا کہ کامران کیانی نے مجھ سے کہا کہ آپ نے میرے بھائی سے اس پر شکایت کی اور اہم بات یہ ہے کہ میں نے اس ٹھیکے کو منسوخ کردیا تھا اور اس حوالے سے جنرل کیانی نے آج تک کوئی ایک بات نہیں کی اور کوئی گلہ نہیں کیا حالانکہ ان سے سیکیورٹی اور دہشت گردی کے حوالے سے کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن انہوں نے ایک لفظ نہیں کہا جو ان کی خود داری کا اظہار ہے اور یہی بات میں نے نیب کو بتائی۔

شہباز شریف نے کہا کہ طارق باجوہ آج اسٹیٹ بینک کے سربراہ ہیں اور ان کے پاس تمام معلومات ہیں اور میں نے ان کی کمیٹی بنائی جس پر نیب میں دردناک اور مضحکہ خیز کہانی ہے کیونکہ کہا گیا ہے کہ آپ نے طارق باجوہ کی کمیٹی بنائی جس میں نشاندہی کی گئی تو میں نے کہا کہ پورا پڑھیں حالانکہ انہوں نے پڑھا تھا لیکن وہ مضحکہ خیز مقدمہ بنانا چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں بطور خادم پنجاب اس منصوبے پر کارروائی نہیں کرتا تو نیب آج ساری ذمہ داری میرے گلے ڈالتا۔

تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ٹھیکے کے حوالے سے رپورٹ آئی تو کارروائی کی گئی۔

صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ کامران کیانی کی کمپنی کا نام 'کونکرو' ہے جو بولی میں حصہ لینے والی کمپنیوں میں شامل تھی جبکہ بولی لینے کے بعد پیپرا رولز کے تحت اس کو آگے کنسلٹنٹ کو دیا جاتا ہے لیکن کامران کیانی کی کمپنی کو براہ راست دیا گیا جو بدعنوانی ہے اس لیے کارروائی کی۔

انہوں نے کہا کہ اگر نیب کا موقف یہی ہے کہ جنرل کیانی کو خوش کرنے کے لیے کامران کیانی کو ٹھیکا دیا جس کے بعد طارق باجوہ کی رپورٹ میں بھی نشاندہی کی گئی جس کے بعد اینٹی کرپشن کو بھجوایا جہاں معلوم ہوا کہ کامران کیانی کی بولی غیرقانونی تھی اور جس دن دستاویزات دی گئیں اسی رات کو ردوبدل کردیا گیا اس لیے میں اس کو نہ پکڑتا تو کامران کیانی بچ جاتا اور مجھے مورد الزام ٹھہرایا جاتا۔

'پی ٹی آئی اور نیب کے ناپاک اتحاد نے مجھ پر الزامات لگائے'

سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے خطاب میں کہا کہ نیب نے مجھے صاف پانی کے معاملے پر بلایا اور کہا کہ آپ کے لیے بری خبر ہے کہ آشیانہ میں گرفتار کررہے ہیں تو میں نے پوچھا کہ میرے آرڈر کسی اور معاملے پر تو گرفتاری اس پر کیوں ہورہی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں یہی حکم ہے۔

حکمراں جماعت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تبدیلی نہیں بلکہ یہ کچھ اور ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے پنجاب کی سابق حکومت کی کرپشن کے حوالے سے بات کی اور پوچھا کہ اس پر کیا کارروائی کی تو انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں بتاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب اہلکار نے کہا کہ میں آپ سے کچھ پوچھ رہا ہوں آپ بڑے سوچ کر جواب دیں ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ آپ کی اور آپ کے بچوں کی جائیدادیں چین اور ترکی میں ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ اگر ایسا ہے تو ثبوت لائے جائیں میں ایک لمحے کے لیے یہاں نہیں بیٹھوں گا۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں نے نیب سے کہا کہ ثبوت لائیں اورکہا کہ ترکی ایک برادر ملک ہے ان کے ساتھ اس طرح کے الزامات لگا رہے ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ بے نامی جائیداد ہوگی میں نے اس کو بھی چیلنج کردیا تو اپنا بیان واپس لیتے ہوئے کہنے لگے وہ پاکستانی ہیں آپ نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ میں چین، ترکی اور سعودی عرب کا سب سے گہرا دوست ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2010 میں سولڈ ویسٹ منیجمنٹ کا ٹھیکا دیا گیا لیکن اس پر بھی الزامات لگائے گئے۔

شہباز شریف نے کہا کہ نیب میں خواجہ آصف کے حوالے سے باتیں کی گئیں تو میں نے کہا کہ مجھے تفتیش کے لیے بلایا ہے یا وعدہ معاف گواہ بنانے کے لیے بلایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور نیب کے ناپاک اتحاد نے مجھ پر الزامات لگائے۔

شہباز شریف نے مطالبہ کیا کہ چین اور ترکی کے حوالے سے جو الزامات لگائے گئے ہیں اس پر پارلیمانی کمیٹی بنا کر چیئرمین نیب کو بلاکر تحقیق کی جائے اور اگر میں غلطی پر ہوا تو میں سیاست سے ہمیشہ کے لیے باہر ہوں گا۔

اجلاس میں شرکت کے لیے اور اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہیں جبکہ انہیں پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں شرکت سے روک دیا گیا۔

1988 کے بعد پہلی مرتبہ قائد حزب اختلاف کو گرفتارکیا گیا، خورشید شاہ

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے پہلے بولنے کی کوشش کی گئی لیکن آپ نے اپنا کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا مقصد یہ نہیں آئیں اور بحث کرکے چلے جائیں بلکہ آئین یہ کہتا ہے کہ پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر قانون کے کچھ قوانین کی بات کی، یہ تمام قوانین ریاست کو چلانے کے لیے بنتے ہیں، مگر پارلیمنٹ میں کی جانے والی بات کو چیلنج نہیں کیا جاتا اور آج کا اجلاس پارلیمنٹ کا ایک اہم قدم ہے۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اس کی بالادستی کے لیے کوشش کی ہے اور جمہوریت کے وجود کے لیے ہم نے جانوں کے نذرانے پیش کرے اور ہم پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج پھر ہم اس طرف گامزن ہیں جب جمہوری روایت کو پامال کرنے کی کوشش کی جارہی اور 1988 کے بعد سے پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ قائد حزب اختلاف کو گرفتار کیا گیا۔

'جمہوری روایات کو پامال کرنے کی کوشش ہو رہی ہے'

پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے معاملے پر کمیٹی بنانے کی ایک تجویز دی گئی کیونکہ پارلیمنٹ تحقیق کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ فکر نہیں کہ قائد حزب اختلاف یا وائس چانسلر جیل میں چلے گئے بلکہ ہمیں پاکستان کے حالات کی فکر ہے، یہاں کی معیشت کا جو حال ہے، ہمیں اس کی فکر ہے کیونکہ پاکستان حکومت یا اپوزیشن کا نہیں 22 کروڑ عوام کا ہے۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اس ملک میں 40 سال آمر رہے ہیں، یہ لوگ پاکستان توڑ دیتے ہیں لیکن ان کا کوئی احتساب نہیں ہوتا بلکہ یہ ساری تلواریں سیاستدانوں کے اوپر آتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اچھی حکومت بری، حکومت اچھی اپوزیشن بری کی تفریق نے ہمیں تقسیم کردیا ہے اور ایسے میں جو ملک کی تباہی کے ذمہ دار ہوتے ہیں وہ زندہ بچ جاتے ہیں۔

رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ’ریکارڈ کے مطابق ہمارے قرضے 24 ہزار ارب روپے تھے جو بڑھ کر 28 ہزار ارب ہوگئے ہیں اور ڈالر کی قیمت 118 سے 135 روپے تک پہنچ گئی اور 2 ماہ میں 17 روپے ڈالر بڑھا ہے، اسٹاک ایکسچینج 52 ہزار سے گر کر 36 ہزار پوائنٹس تک پہنچ گئی ہے‘ لیکن کسی کو کوئی فکر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاست دان ملک کی ریاست کے لیے خدمت کرتا ہے، ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور ذہن میں بٹھانا چاہیے کہ جو آج حکومت میں ہوتا ہے وہ کل اپوزیشن میں ہوتا ہے‘۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ’اس ملک میں ایسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ عوام پریشان ہیں اور اس سے حکومت بھی پریشان ہوگئی ہے، 143 فیصد گیس کی قیمتیں بڑھانا پاکستان میں پہلے کبھی نہیں ہوا اور اس حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ 55 روپے فی کلو میٹر میں ہیلی کاپٹر کا سفر ہوتا ہے، اتنی بڑی تبدیلی آئے اور کہیں کہ تبدیلی نہ آئی تو پھر یہ کیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کہہ رہی کہ کسانوں کو سبسڈی دی جارہی لیکن ایسا نہیں ہے، روٹی 7 روپے اور نان 10 روپے کا تھا، آج روٹی 10 اور نان 15 روپے کی ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ اس ملک کی سیاست ہی ایسی ہے کہ اپوزیشن کو دبا سکتے ہیں پکڑ سکتے ہیں، ہم نے تو ایسی سیاست کی ہے جو کوڑوں، پھانسی اور جلاوطنی کی سیاست تھی لیکن جو لوگ اچانک آگئے انہیں کیا پتہ کہ مہنگائی کیا ہوتی ہے۔

'پی ٹی آئی میں 80 فیصد مشرف کی باقیات ہیں'

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے رہنما پی پی پی کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی میں تو 80 فیصد پرویز مشرف کی باقیات ہیں، جو لوگ کل ہمارے ترجمان تھے، ہم پر قربان جاتے تھے آج وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو گالم گلوچ کی سیاست نہیں آتی کیونکہ یہاں لوگ نیچے سے آتے ہیں جبکہ حکومت گالم گلوچ کی سیاست کرتی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کا عزت و احترام کریں۔

رہنما پی پی پی کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں مہنگائی ہونا، سرمایہ کاری نہیں آنا اس کی وجہ ملک کی سیاست ہے، قائد حزب اختلاف اور سیاستدانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔

—فوٹو:فہد چوہدری
—فوٹو:فہد چوہدری

انہوں نے کہا کہ پاکستان آج بھی دنیا میں سب سے خوش حال ملک بن سکتا ہے لیکن ہم ایک دوسرے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا ہمیں سیاست کو سیاست سمجھ کر چلنا چاہیے، اپوزیشن اور حکومت کو مل کر چلنا چاہیے۔

قبل ازیں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اسپیکر کے پروڈکشن آرڈر پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست میں لاہور سے اسلام آباد پہنچے اور مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کے لیے کمیٹی روم پہنچے، تاہم انہیں واضح کیا گیا کہ ان کے پروڈکشن آرڈر صرف اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے جاری کیے گئے ہیں اس لیے وہ پارلیمانی پارٹی اجلاس کی صدارت نہیں کرسکتے۔

شہباز شریف پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کیے بغیر کمیٹی روم سے چلے گئے۔

مسلم لیگ (ن) کے اراکین کالی پٹیاں باندھ کر پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے کمیٹی روم پہنچے تھے۔

خیال رہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کیے تھے۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی شہباز شریف سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی جس کے بعد چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو بھی اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے ایوان میں پہنچ گئے۔

یہ بھی پڑھیں:شہباز شریف کی گرفتاری: اپوزیشن کا قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ

قبل ازیں گزشتہ ہفتے نیب کی جانب سے شہباز شریف کو گرفتار کیے جانے کے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن نے فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرادی تھی جس میں اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے اراکین نے بھی دستخط کردیے تھے تاہم اسپیکر نے اجلاس 17 اکتوبر کو طلب کیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) نے احتجاج کرتے ہوئے پنجاب اور قومی اسمبلی کے باہر اپنے اراکین کا اجلاس طلب کرلیا تھا جہاں حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے شہباز شریف کی گرفتاری پر نیب اور حکومت کو آڑھے ہاتھوں لیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ نیب لاہور نے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو 5 اکتوبر کو صاف پانی اسکینڈل کے حوالے سے بیان کے لیے طلب کیا تھا جہاں انہیں آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں باضابطہ طور پر گرفتار کرلیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں