2017ء میں حاصل کیے گئے ڈیٹا کی بنیاد پر ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) کی 2018ء کی رینکنگ میں پاکستان 189 ممالک کی فہرست میں 150ویں نمبر پر ہے۔ ہندوستان 130ویں نمبر پر، بنگلہ دیش 136ویں نمبر پر اور نیپال 149ویں نمبر ہونے کے سبب ہم سے آگے ہیں۔ جبکہ 76ویں نمبر کے ساتھ سری لنکا اس پورے خطے کا اسٹار ہے۔

یہ مشکل وقت ہے مگر جب ہم بلند معاشی شرحِ نمو کے دور میں بھی ہوتے تھے تب بھی انسانی ترقی کے اعتبار سے ہم نے کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ بلند شرحِ نمو نے ہمیں کچھ ادوار کے دوران زیادہ تنخواہیں اور غربت میں کچھ کمی تو دی ہے مگر اس سے ملک کے زیادہ تر لوگوں کے لیے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں نمایاں تبدیلی سامنے نہیں آئی ہے۔

اس کے علاوہ حال ہی میں ورلڈ بینک کی جانب سے لانچ کی گئی ہیومن کیپیٹل انڈیکس (ایچ سی آئی) میں بھی ہم کافی خراب کارکردگی رکھتے ہیں۔ پاکستان آخری 25 فیصد ملکوں میں آتا ہے۔ ہندوستان دوسری چوتھائی (کوارٹائیل) میں اور سری لنکا تیسری چوتھائی میں آتا ہے۔ ایچ ڈی آئی کے مقابلے میں ایچ سی آئی تھوڑا سا مختلف ہے۔ یہ ان عوامل پر کچھ زیادہ توجہ دیتا ہے جو انسانی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر جہاں ایچ ڈی آئی کی توجہ اسکولنگ کے متوقع سالوں پر ہوتی ہے وہاں ایچ سی آئی اس دورانیے میں کتنا کچھ سیکھا گیا، اس پر توجہ دیتی ہے اور پھر سیکھنے کے اعتبار سے 'اسکولنگ کے سال' شمار کرتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسکولنگ کے اختتام پر سیکھنے اور معلومات کے اعتبار سے انسان کے پاس کیا 'کیپیٹل' یا صلاحیتیں ہوں گی۔

پڑھیے: اب معاشرے کو دفاع کی ضرورت ہے

پاکستان کی ایچ ڈی آئی اور ایچ سی آئی رینکنگز سے ہمیں 2 باتیں پتہ چلتی ہیں۔ پہلی، ہم نے اپنے لوگوں پر سرمایہ کاری نہیں کی ہے اور یہ اس لیے بھی سچ ہے کیونکہ ہمارے پاس کئی دہائیوں تک صحتمند اقتصادی ترقی رہی ہے۔

دوسری، جب ہم نے اپنے لوگوں پر سرمایہ کاری کی بھی ہے، تب بھی یہ خراب رہی ہے۔ جب ہم نے تعلیم پر سرمایہ کاری کی ہے تو ہم نے تعلیم تک رسائی پر زیادہ توجہ دی ہے مگر معیار کے بارے میں زیادہ فکر نہیں کی ہے۔ پاکستان میں اسکول میں گزارے ہوئے سالوں اور اگر ان سالوں کو سیکھنے کے اعتبار سے دیکھیں تو ان میں بہت بڑا فرق موجود ہے اور یہ نتیجہ حالیہ ہیومن کیپیٹل انڈیکس میں سامنے نہیں آیا ہے بلکہ یہ گزشتہ ورلڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ میں بھی موجود تھا۔

صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کم تر کامیابیاں پاکستان کے لیے پریشان کن ہونی چاہیئں۔ اگر ہماری ترقی ہمارے شہریوں کی زندگیاں بہتر نہیں بنا رہی تو پھر ترقی یا معاشی نمو کے حق میں کیا دلیل دیں؟ معاشی ترقی حتمی منزل نہیں ہے بلکہ یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس سے انسانوں کی زندگیاں بہتر بنتی ہیں۔ ہیومن ڈیولپمنٹ یا انسانی ترقی حتمی مقصد ہے۔

ہمارے پاس بہت بڑی اور بہت نوجوان آبادی ہے۔ اگر وہ صحتمند اور تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو ملک کس طرح بلند شرحِ ترقی برقرار رکھنے اور منظم رکھنے کا سوچ بھی سکتا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ ویسے تو گھرانے کی سطح کا ڈیٹا دکھاتا ہے کہ ہم نے گزشتہ 2 سے 3 دہائیوں میں غربت میں کمی کے اعتبار سے کافی ترقی کی ہے مگر غربت سے جڑی دیگر چیزوں میں بہتری نہیں آئی ہے۔ شیرخوار بچوں کی صحت اور اموات، ماؤں کی صحت اور اموات، بچوں میں نشونما رک جانے کے اعداد و شمار بہت سست بہتری، ٹھہراؤ، جبکہ کچھ جگہوں پر تنزلی تک دکھاتے ہیں۔ اس پیچیدگی کی ایک وضاحت یہاں دیے گئے معیار کے زاویے سے مل سکتی ہے۔

تقریباً گزشتہ 3 دہائیوں سے ماضی کی ہر حکومت نے کہا ہے کہ انسانی ترقی ان کی پہلی ترجیح ہے۔ مگر نتائج سے یہ لگتا تو نہیں کہ واقعی یہ ان کی ترجیح رہی ہے۔ کیا یہ حکومتیں اپنی ترجیحات کے حصول کے لیے پالیسیاں تیار اور ان کا نفاذ نہیں کرسکی تھیں؟ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے فیصد کے اعتبار سے صحت اور تعلیم پر جو ہم معمولی اخراجات کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اصل ترجیحات کیا ہیں۔ ہم کئی دہائیوں سے تعلیم پر اخراجات کو جی ڈی پی کے 4 فیصد تک لانے کا 'وعدہ' کر رہے ہیں مگر یہ اب بھی 2 سے ڈھائی فیصد کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔

مزید پڑھیے: سال 2017 پاکستانی معیشت کے لیے کیسا رہا؟

اس کی ایک وضاحت تو اس ترقیاتی ماڈل سے ملتی ہے جو کہ یہ تمام حکومتیں ترقی کے بارے میں سوچنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اس ماڈل کی بنیاد معاشی ترقی پر ہے جس کا حساب جی ڈی پی کے بڑھنے سے لگایا جاتا ہے۔ معاشی ترقی مارکیٹس یا اوپر سے نیچے خودکار انداز میں آتی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ یہ خود ہی انسانی ترقی یقینی بنا دے گی۔ روزگار، نوکریا، تعلیم اور صحت کے مقاصد، سوشل ویلفیئر اور عدم تحفظ سے بچاؤ وغیرہ کو بنیادی مقصد تصور نہیں کیا جاتا۔

حکومت کی جانب سے ہر سال بجٹ سے عین پہلے جاری کیا جانے والا اقتصادی سروے ایک اہم سرکاری دستاویز ہوتی ہے جو اس کی کارکردگی اور معیشت کی حالت کے بارے میں بات کرتی ہے۔ اقتصادی سروے کا لے آؤٹ ہی بہت کچھ آشکار کردیتا ہے۔ پہلا باب ترقی اور سرمایہ کاری پر ہوتا ہے۔ اگلے چند باب شعبوں کی ترقی اور کارکردگی پر ہوتے ہیں۔ صحت، تعلیم، غذائیت اور روزگار کا جائزہ باب 10، 11 اور 12 میں لیا جاتا ہے۔ حکومت کی 'پہلی ترجیحات' ابتدائی صفحات کی مستحق نہیں؟ عدم مساوات پر تو باب بھی قائم نہیں کیا گیا۔ حکومت کی کارکردگی کو واضح طور پر صرف معاشی شرحِ نمو کے اعتبار سے پرکھا جاتا ہے۔

صرف یہ بھی نہیں ہے کہ انسانی ترقی حکومتوں کا بنیادی مقصد نہیں، بلکہ یہ تو ان کے اہم مقاصد میں بھی نہیں ہے۔ یہاں پر حکومتیں نہ ہی اپنی کارکردگی کو انسانی ترقی کے اعتبار سے نہیں پرکھتیں ہیں اور نہ ہی وہ انسانی ترقی کے اعتبار سے اپنے مقاصد کا تعین نہیں کرتیں، جبکہ معاشی ترقی کے جس ماڈل کے ذریعے وہ سوچتی ہیں، اس میں بھی انسانی ترقی حتمی مقصد نہیں ہے۔

پڑھیے: یہ طاقتوروں کا معاشرہ کب مظلوموں کی آہ سنے گا؟

وہ اپنے پسندیدہ مقصد یعنی معاشی ترقی کے لیے انسانی ترقی کی بنیادی اہمیت کو بھی تسلیم نہیں کرتیں۔ پاکستان میں حال ہی میں چینی سرمایہ کاری پر کافی بحث ہوئی ہے۔ کیا ان میں سے کسی بھی بحث میں انسانی ترقی پر بات ہوئی ہے؟ زیادہ تر بحثیں معاشی ترقی، انفراسٹرکچر کی تعمیر اور سرمایہ کاریوں پر ہوئی ہے۔ روزگار پر کبھی کبھی بات کی گئی ہے مگر صرف ذیلی انداز میں۔

گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر انسانی ترقی کے بجائے معاشی نمو، سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر پر توجہ دینے کے لیے تنقید کرتی رہی ہے۔

اب حکومت میں پی ٹی آئی خود ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا وہ انسانی ترقی کو اپنی پہلی ترجیح بناتے ہیں یا نہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں