ہولی وڈ میں سوانحی موضوعات پر فلمیں بنانے کا رجحان خاصا پرانا ہے۔ بہت کم ایسی فلمیں ہوتی ہیں جنہیں دیکھنے کے بعد ہم حیرت زدہ ہوجاتے ہیں، پھر کوئی ایسی فلم بنے، جس کی کہانی بھی ہم پہلے سے جانتے ہوں تو فلم ساز کے لیے ایک دلچسپ فلم بنانا مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں ریلیز ہونے والی ہولی وڈ کی فلم ’فرسٹ مین‘ ایسی ہی ایک شاندار سوانحی اور سائنس فکشن فلم ہے، جس کو چاند پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی خلا باز نیل آرمسٹرونگ کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے۔

طویل عرصے بعد ایسی عمدہ فلم ہولی وڈ میں تخلیق ہوئی ہے، جس میں چاند کو فتح کرلینے والے اُداس خلا باز کو دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے، جس کے دماغ میں چاند تک پہنچنے کی ہرممکن کوشش اور دل میں اپنی بیٹی کی موت کا غم دھڑکتا تھا۔

ماضی اور پس منظر

1945ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر بظاہر تو عالمی تصادم رک گیا، لیکن سرد جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ایسی ہی ایک سرد جنگ دنیا کی 2 بڑی طاقتوں روس اور امریکا کے درمیان خلا میں لڑی جا رہی تھی۔ ابتدائی مرحلے میں روس کو کچھ کامیابیاں حاصل ہوئیں، جن میں سے ایک کامیابی، زمین سے پہلی بار خلا میں کسی انسان کا جانا تھا۔

فلم کا پوسٹر
فلم کا پوسٹر

امریکی بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں تھے، انہوں نے سرتوڑ کوششیں جاری رکھیں۔ کئی خلائی مشن تیار کیے، جن میں سے اکثریت میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ آخرکار 20 جولائی 1969ء کو امریکی خلائی ادارے ’ناسا‘ کی 3 رکنی خلابازوں کی ٹیم نے زمین سے چاند تک رسائی حاصل کرکے دنیا کو حیران کردیا۔

ان تینوں امریکی خلابازوں میں سے مرکزی رکن نیل آرمسٹرونگ نے چاند پر پہلا قدم رکھا۔ اس تاریخی فتح کے لیے انہوں نے معروف جملہ کہا، ’انسان کے لیے یہ ایک چھوٹا سا قدم لیکن انسانیت کے لیے ایک جست ہے‘۔ چاند پر انسان نے قدم رکھا یا نہیں، اس پر بھی امریکی شہریوں سمیت پوری دنیا 2 حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک طبقہ اس بات کو حقیقت مانتا ہے کہ انسان چاند پر پہنچ گیا ہے، دوسرے طبقے کے مطابق یہ سب کچھ خیالی پلاؤ سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور چاند پر جانے کی تمام سرگرمی زمین پر ہی فلمائی گئی ہے، جس کے ذریعے دنیا کو بیوقوف بنایا گیا کیونکہ اگر چاند فتح ہوچکا ہے تو دوبارہ خلا بازوں نے اب تک چاند پر قدم کیوں نہیں رکھا؟ جبکہ موجودہ دور میں وہ زیادہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ اس فلم کی بدولت یہ تمام بحثیں ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہیں۔

فلم سے جڑا ہوا تنازع

یہ موضوع ویسے ہی خاصا متنازع تھا، مگر فلم ریلیز ہونے کے بعد نئی بحث چھڑ گئی کہ فلم میں امریکی خلابازوں کو چاند پر اترنے کے بعد جھنڈا لہراتے ہوئے کیوں نہیں دکھایا گیا؟ اس تنازع کی وجہ سے فلم کو کافی تنقید کا سامنا ہے اور فلم کا باکس آفس بھی اس بات سے متاثر ہوا ہے۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

میرے خیال میں یہ بحث فضول تھی، کیونکہ فلم میں جابجا امریکی پرچم نظر آرہا ہے، چاند پر اترنے کے بعد بھی امریکی پرچم پس منظر میں لگا ہوا دکھائی دے رہا ہے، بس یہ ضرور ہوا کہ اس کو چاند پر لہراتے ہوئے نہیں دکھایا گیا۔ اس فلم کی نمائش کے بعد اس اعتراض کی وجہ سے نیل آرمسٹرونگ کے ساتھ چاند پر اترنے والے دوسرے خلا باز بزالڈرین بھی ناراض ہوگئے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک امریکی سینٹر نے اسے امریکا مخالف فلم قراردے دیا، جبکہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس بحث میں اپنا حصہ ڈالا۔

اس تناظر میں نیل آرمسٹرونگ کے بیٹوں نے فلم کے حق میں آواز اٹھائی اور اسے ایک اچھی فلم قرار دیا جبکہ فلم کے ہیرو کا کہنا تھا کہ یہ محض ایک امریکا کی نہیں بلکہ انسانیت کی کامیابی تھی اور یہی پیغام فلم کے ذریعے دینا مقصود ہے۔

سائنس فکشن فلمیں اور حالیہ ’فرسٹ مین‘ فلم

دنیا بھر میں اب تک اس موضوع پر درجنوں دستاویزی اور فیچر فلمیں بن چکی ہیں، جن میں سرِفہرست ’اپالو مشن‘ کے تحت فلموں کی سیریز کا منظرنامہ ہے، جن کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ 1995ء میں Apollo 13 جبکہ 2007ء میں In the Shadow of the Moon اور 2011ء میں Apollo 18 کو بھی پیش کیا گیا۔

نیل آمسٹرونگ
نیل آمسٹرونگ

چاند پر بھیجے جانے والی ’ناسا‘ کی 3 رکنی خلابازوں کی ٹیم
چاند پر بھیجے جانے والی ’ناسا‘ کی 3 رکنی خلابازوں کی ٹیم

کئی دستاویزی فلمیں ان کے علاوہ ہیں۔ 1969ء میں چاند کی تسخیر کے سال میں ہی Footprints on the Moon اور 1972ء میں Moonwalk One دستاویزی فلمیں بھی اس موضوع پر مقبولیت کی حامل رہیں، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہولی وڈ کے دیگر بڑے فلم سازوں کے علاوہ، معروف فلم ساز اسٹیون اسپیل برگ بھی اس موضوع کی فلموں کا حصہ رہے ہیں۔ ان سب فلموں کے تناظر میں دیکھا جائے تو حالیہ فلم ’فرسٹ مین‘ اس لیے منفرد ہے کیونکہ یہ فلم نیل آرمسٹرونگ کی پیشہ ورانہ زندگی پر کم اور ذاتی زندگی، جس میں گہرائی سے احساسات بھی شامل ہیں، پر زیادہ بات کرتی ہے۔

’فرسٹ مین‘ کا اسکرین پلے

اس فلم کا اسکرین پلے جوش سنگر (Josh Singer) نے لکھا ہے جو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے لیے انہوں نے نیل آرمسٹرونگ کے خاندان، دوست احباب سے گفتگو کی، بالخصوص ان کے دونوں بیٹوں سے ملے۔ فلم کی کہانی کو جیمز ہینسن (James R. Hansen) کی کتاب First Man: The Life of Neil A. Armstrong سے ماخوذ کیا گیا ہے۔ لہٰذا دونوں لکھنے والوں کی تحقیق اس کہانی کے پیچھے موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ کہانی میں کہیں کوئی جھول نظر نہیں آتا۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

کہانی واضح اور مکالمے پختہ ہیں اور ایک ایسے نیل آرمسٹرونگ کی کہانی کو بیان کرتے ہیں جس کے دماغ میں چاند تک پہنچنے کا جنون سوار ہے مگر دل میں اس بیٹی کی یاد مچلتی رہتی ہے۔ بیٹی کی جدائی نے اسے اندر سے توڑ کر اداس کردیا لیکن اس نے پھر بھی چاند کو پالینے کی ٹھان لی۔

پورا میڈیا پوچھتا رہا کہ آپ چاند پر اپنے ساتھ کیا چیز لے کر جا رہے ہیں مگر وہ کسی کو نہیں بتاتے، چاند سے واپسی پر اس نے واحد ذاتی چیز جس کو وہاں انسانی نشانی کے طور پر چھوڑا، وہ ان کی بیٹی کا چھوٹا سا بریسلیٹ تھا، جس پر اس کا نام بھی لکھا ہوا تھا۔ جہاں ایک طرف انسان اور دنیا کے بارے میں ان خلابازوں نے ایک تحریر چھوڑی، وہیں دوسری طرف نیل آرمسٹرونگ نے انسانی احساسات کا تاثر بھی چاند کے حوالے کیا کہ ایک مشہور ترین انسان بھی اداس ہوسکتا ہے، چاہے وہ چاند کو تسخیر ہی کیوں نہ کرلے۔ یہی بات اس فلم کو دوسری بننے والی تمام فلموں سے ممتاز کرتی ہے۔

جب انسان چاند پر پہنچا
جب انسان چاند پر پہنچا

فلم سازی، ہدایت کاری اور موسیقی

اس فلم کے 4 بڑے فلم ساز ہیں جنہوں نے اس کی تشکیل میں کلیدی کام کیا۔ تاہم اس کی اہم بات یہ بھی ہے کہ فلم کے ’کوپروڈیوسر‘ کے طور پر جیمز ہینسن (James R. Hansen) کو بھی شامل تخلیق کیا گیا۔ 70 ملین ڈالرز کے بجٹ سے بننے والے فلم میں مقامات اور ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے، جس کی اس فلم میں بہت ضرورت بھی تھی۔ یوں National Aeronautics and Space Administration NASA جیسے ادارے کے تعاون سے چاند پر جانے والے شخص پر بننے والی فلم میں چار چاند لگ گئے۔

اس فلم کے ہدایت کار ڈیمئین شیزلے (Damien Chazelle) نے پہلی بار اپنے مزاج اور انداز سے ہٹ کر کوئی فلم بنائی، جس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔ چونکہ انہیں موسیقی سے بے حد رغبت ہے اسی لیے گزشتہ برس ان کی ہدایت کردہ فلم ’لالا لینڈ‘ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ توڑے اور آسکر سمیت کئی بڑے فلمی اعزازات اپنے نام کیے۔ میرا اندازہ یہی ہے کہ یہ فلم بھی انہیں شہرت اور مقبولیت کی نئی بلندیوں تک لے جائے گی۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

ایک گھنٹے سے زیادہ دورانیے کی موسیقی نے فلم کے ایک ایک منظر میں گویا جان ڈالی، احساسات کو موسیقی کی زبان میں جدید ترین مووی کیمرے ’آئی میکس‘ سے فلما کر اسکرین پر پیش کیا گیا ہے جسے دیکھ کر آپ داد دیے بغیر رہ نہیں سکیں گے۔

اداکاری و دیگر تکنیکی معاملات

چند ایک معمولی تکنیکی غلطیوں کو نظر انداز کردیا جائے تو فلم ویژؤل اور تخلیق دونوں میں اپنی گرفت آخری وقت تک مضبوط رکھتی ہے۔ حالانکہ یہ ہولی وڈ کے انداز سے الٹ ایک طویل دورانیے کی فلم ہے۔ اداکاری میں ریان گوسلینگ (Ryan Gosling) نے فن کی نئی بلندیوں کو چھولیا ہے، یہ اداکار اپنے وقت کا شاندار فنکار بننے کی طرف برق رفتاری سے گامزن ہے اور مزید کئی اعزازت اس کے منتظر ہیں۔

ریان گوسلینگ، کلیر فوئے، ڈیمئن شیزلے
ریان گوسلینگ، کلیر فوئے، ڈیمئن شیزلے

دیگر اداکاروں میں سب نے اپنے اپنے کردار ٹھیک سے نبھائے، لیکن نیل آرمسٹرونگ کی بیوی جینٹ آرمسٹرونگ کے کردار میں کلیر فوئے (Claire Foy) نے شاندار اداکاری کی، جس سے فلم حقیقت سے قریب ہوتی چلی گئی۔ کینڈین اداکار اور برطانوی اداکارہ نے ایک امریکی کی زندگی پر بننے والی فلم میں کچھ ایسے حقیقی رنگ بھر دیے ہیں جو فلم بینوں کے لیے بلاشبہ یادگار ہوں گے۔ سنیماٹوگرافی، سیٹ ڈیزائننگ، ویژؤل افیکٹس اور دیگر تکنیکی معاملات میں بھی بھرپور کام کیا گیا، جس سے یہ فلم کسی ماہر ٹیم کا شاہکار معلوم ہوئی۔

نتیجہ

سائنس فکشن اور سوانح عمری کے شعبے میں اس طرح کی فلم تخلیق کرنا بہت مشکل کام ہے، جس میں تخلیق، جمالیات، احساسات، حقائق اور زندگی کی پوشیدہ تلخیاں بھی بھرپور دکھائی دیں۔ ان کی سرگوشیوں سے ایک دنیا گونج اٹھے اور خاموشی ایسی جس طرح چاند پر نیل آرمسٹرونگ نے محسوس کی تھی۔ اگر آپ یہ سب کچھ ایک ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ فلم آپ ہی کے لیے ہے۔

باکس آفس پر اسے کامیابی حاصل ہوگی یا نہیں، لیکن دل و دماغ کے باکس آفس پر یہ فلم تادیر راج کرے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

zafar khan Oct 21, 2018 10:12pm
going to watch this movie