ہندوستان کا MeToo# تحریک پر بے مثال ردِعمل اب ایک کے بعد ایک صنعت کو لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے اور اب زیادہ سے زیادہ خواتین سوشل میڈیا پر جنسی استحصال، جنسی ہراسانی اور معاشرے کے اندر گندھے ہوئے صنفی امتیاز کی کہانیاں سامنے لا رہی ہیں۔

اس تحریک پر مختلف حلقوں کی جانب سے کافی تنقید بھی ہوئی ہے جو اسے 'شرم دلاؤ مہم' کہہ رہے ہیں جس میں سسٹم کو تبدیل کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ اس طرزِ فکر سے اتفاق کرنے والوں میں سپریم کورٹ کی سابق جج سجاتا منوہر بھی ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ کی سابق جج سجاتا منوہر
بھارتی سپریم کورٹ کی سابق جج سجاتا منوہر

اگست 1997ء میں ملازمت پیشہ خواتین کو ہراسانی سے بچانے کے لیے وشاکھا گائیڈلائنز لکھنے کی ذمہ دار جسٹس منوہر کا کہنا ہے کہ ’اگر خواتین خود کو صرف سوشل میڈیا تک محدود کرلیں گی تو مقصد حاصل نہیں ہوگا۔‘

فری پریس جرنل کے ساتھ ایک ایکسکلوژیو انٹرویو میں جسٹس منوہر کا کہنا تھا کہ ’میں نے جو گائیڈلائنز لکھی تھیں وہ صرف ایسے موجودہ معاملات کے متعلق ہیں جن میں کوئی خاتون اپنے کام کی جگہ پر ہراساں ہوتی ہے۔ ان گائیڈلائنز کا مقصد ان کیسز پر توجہ دینا نہیں تھا جن میں خواتین کئی دہائیوں کے بعد سامنے آتی ہیں۔’

پڑھیے: کیا ہندوستان میں ’می ٹو‘ کامیاب ہوسکے گی؟

ان کا کہنا ہے کہ اس سے پولیس کو الزام عائد کرنے والے شخص کے دعوؤں کے ثبوت تلاش کرنے میں بہت زیادہ مشکل ہوتی ہے۔

جسٹس منوہر نے فری پریس جرنل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’20 سے 25 سال پہلے ہونے والے کسی واقعے کا ثبوت ویسے کا ویسا ہی نہیں رہے گا۔ پولیس کے پاس ملزم کے خلاف کارروائی کے لیے کچھ قابلِ بھروسہ چیز تو ہونی چاہیے کیونکہ اس بات کا امکان ہمیشہ رہتا ہے کہ کچھ خواتین صرف ذاتی عناد کی بنا پر لوگوں کے نام لے رہی ہوں۔‘

جسٹس منوہر نے مزید کہا کہ ’خواتین کے ہراساں ہونے کے حالیہ واقعات میں صورتحال ایسی نہیں ہوتی کیونکہ پولیس باآسانی الزامات کو پرکھ سکتی ہے۔‘

جسٹس منوہر کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے بہترین طرزِ عمل یہ ہوگا کہ وہ صرف سوشل میڈیا پر بھروسہ کرنے کے بجائے استحصال اور ہراساں کرنے والوں کے نام پولیس کے پاس لے کر جائیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر خواتین نے خود کو صرف سوشل میڈیا تک محدود کرلیا تو کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ ان کے پاس سوشل میڈیا کے بجائے پولیس کے پاس جانے کا آپشن بھی موجود ہے۔ کیس رپورٹ کرنے میں ان کی ناکامی سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس فورم کا کئی افراد غلط استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے حقیقی خواتین کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘

مزید پڑھیے: بولی وڈ کی 11 معروف فلمسازخواتین کا اہم اعلان

جسٹس منوہر نے شکایات کے حل کے لیے نئے قوانین کی تیاری پر بھی زور دیا کیونکہ وشاکھا گائیڈلائنز صرف دورِ موجودہ کی ہراسانی کے لیے تیار کی گئی تھیں۔

جسٹس منوہر کہتی ہیں کہ ’اس تحریک کے ذریعے سامنے آنے والے کیسز کے حل کے لیے جب تک قانون تیار نہیں کیا جائے گا، تب تک کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ موجودہ قوانین اس طرح کی شکایات سے نہیں نمٹ سکتے، اس لیے ایک ایسے قانون کی تیاری کی ضرورت ہے جو کہ جرم کی نوعیت کی تعریف کرسکے اور یہ بتاسکے کہ کس طرح کی سزا دی جانی چاہیے اور یہ بھی کہ کس طرح دیگر معاملات کا تعین کرسکے۔‘


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی وائر میں شائع ہوا اور بہ اجازت دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

majidksk Oct 23, 2018 02:13pm
This is the right way, otherwise, people are misusing it. who goes to whom while wearing what depending is not means to bad intentions if a passed law is there, why not register a case instead of allegations...
saba khan Oct 24, 2018 02:07pm
men are also sexually attacked by women but there is no forum where men raise there voice?