اسلام آباد: جعلی اکاؤنٹس کیس میں 54 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز 107 جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے ہونے کا انکشاف سامنے آگیا۔

سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے پیشرفت رپورٹ پیش کی گئی۔

جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقات کے دوران تو بڑا فراڈ سامنے آیا ہے، 54 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز 107 جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے کی گئیں، جبکہ کئی کیسز میں اکاؤنٹس محدود مدت میں کھول کر بند کر دیئے گئے۔

چیف جسٹس نے احسان صادق سے استفسار کیا کہ کیا آپ بینیفشریز تک پہنچ جائیں گے۔

جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جی امید ہے کہ بینیفشریز تک پہنچ جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ فالودہ بیچنے والے، رکشہ چلانے والوں کے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے ٹرانزیکشنز کی گئیں، جبکہ 36 کمپنیاں صرف اومنی گروپ کی سامنے آئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری، فریال تالپور کی پھر عدالت میں پیشی

جے آئی ٹی سربراہ نے جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات میں سندھ حکومت کی جانب سے تعاون نہ کرنے کا الزام لگایا۔

انہوں نے کہا کہ چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری آبپاشی اور سیکریٹری زراعت کی جانب سے تعاون نہیں کیا جارہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو ہم شام تک سب کو بلا لیتے ہیں۔

سندھ حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سندھ حکومت کی جانب سے تو تعاون کیا جارہا ہے، جے آئی ٹی نے 2008 سے 2018 تک 46 افراد کو دیئے گئے معاہدوں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔

عدالت نے آئندہ سماعت پر آئی جی سندہ کو طلب کرلیا، کیس کی اگلی سماعت 26 اکتوبر کو کراچی میں ہو گی۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: ’334 افراد، 210 کمپنیاں مشکوک ٹرانزیکشنز میں ملوث‘

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔

حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔

ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی تھا، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر تھا کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔

ایف آئی آر کے متن میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کیا گیا جبکہ فائدہ اٹھانے والے افراد اور کمپنیوں سے وضاحت بھی طلب کی گئی تھی۔

ایف آئی آر کے متن میں مزید کہا گیا تھا کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک کی گئی جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور بھی قرار دیا گیا تھا۔

جس کے بعد جعلی اکاؤنٹس کیس اور 35 ارب روپے کی فرضی لین دین سے متعلق کیس میں ایف آئی اے کی درخواست پر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس منجمد کرنے میں تاخیر سے کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن کا انکشاف

تاہم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دونوں رہنما منی لانڈرنگ کیس میں ملزم ہیں۔

جس کے بعد نگراں حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا تھا۔

بعدازاں فریال تالپور نے لاڑکانہ میں سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔

علاوہ ازیں 35 ارب روپے کے جعلی اکاؤنٹس کیس میں 15 اگست کو ایف آئی اے نے اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور عبدالغنی مجید کو گرفتار کرلیا تھا لیکن ملزمان کی جانب سے صحت کی خرابی کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں