رکشہ ڈرائیور خودسوزی کیس: زرضمانت نہ ہونے پر ملزم کو جیل بھیج دیا گیا

اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2018
خودسوزی کرنے والا رکشہ ڈرائیور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا تھا— فائل فوٹو
خودسوزی کرنے والا رکشہ ڈرائیور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا تھا— فائل فوٹو

کراچی کی مقامی عدالت نے رکشہ ڈرائیور خودسوزی کیس میں ٹریفک پولیس اہلکار کی ضمانت منظور کرلی، تاہم زرضمانت نہ ہونے کے باعث ملزم کو جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔

سٹی کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں شارع فیصل پر رکشہ ڈرائیور کی خود سوزی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران گرفتار ٹریفک پولیس اہلکار حنیف کو پیش کیا گیا۔

دوران سماعت پولیس نے موقف اپنایا کہ ٹریفک پولیس اہلکار حنیف پر رشوت لینے کا الزام ہے اور ملزم پر سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: ’غلط چالان‘ پر خودسوزی کرنے والا رکشہ ڈرائیور چل بسا

عدالت میں تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم نے رکشہ ڈرائیور کا چالان کیا تھا اور کہا تھا کہ چالان بھرو اس کے بعد رکشہ لے کر جانا۔

انہوں نے بتایا کہ اس معاملے پر رکشہ ڈرائیور نے خود کو پیٹرول چھڑک کر آگ لگا لی اور وہ 22 اکتوبر کی صبح ہسپتال میں دوران علاج دم توڑ دیا۔

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے ابھی تک کیا تفتیش کی اور چالان بک قبضے میں لی؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ آج صبح 7 بجے تفتیش کا کہا گیا ہے، لہٰذا 2 دن کا ریمانڈ دیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد ملزم حنیف کی ایک لاکھ روپے کے عوض ضمانت منظور کرلی، تاہم زر ضمانت کی رقم نہ ہونے کے باعث ٹریفک پولیس اہلکار کو جیل بھیجنے کا حکم دے دیا گیا۔

ساتھ ہی عدالت نے تفتیشی افسر کو بھی یہ حکم دیا کہ وہ بغیر کسی دباؤ کے تفتیش کریں۔

علاوہ ازیں عدالت کے باہر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں ٹریف پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ میں رکشہ ڈرائیور کو جانتا تک نہیں اور نہ ہی میں نے رشوت طلب کی۔

پولیس اہلکار حنیف کا کہنا تھا کہ میں نے رکشہ ڈرائیور کا کم سے کم چالان 150 روپے کا کیا تھا، میں چالان کرنے کے بعد گھر چلا گیا تو بعد میں تھانے سے کال آئی کہ یہ واقعہ ہوا ہے۔

اس دوران صحافی نے سوال کیا کہ آپ پر الزام ہے کہ آپ بار بار رشوتے لیتے تھے، جس پر پولیس اہلکار نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے، کاغذات نہ ہونے کے باعث گاڑی روکی اور چالان کاٹنے کے بعد سب یہی کہتے ہیں۔

رکشہ ڈرائیور کی خودسوزی

واضح رہے کہ 20 اکتوبر کو صدر تھانے کی حدود میں شاہراہ فیصل پر ٹریفک پولیس اہلکار کی جانب سے غلط چالان کرنے اور مبینہ طور پر رشوت طلب کرنے پر خالد نامی رکشہ ڈرائیور نے کراچی پوسٹ آفس کے قریب واقع ٹریفک پولیس کی چوکی کے سامنے خود پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگالی تھی۔

خود سوزی سے قبل رکشہ ڈرائیور نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ ٹریفک پولیس کے اے ایس آئی محمد حنیف ان سے روزانہ کی بنیاد پر 100 روپے وصول کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: 'غلط چالان' پر رکشہ ڈرائیور کی خود سوزی کی کوشش

خالد نے انکشاف کیا تھا کہ اس روز بھی انہوں نے ٹریفک پولیس کے اے ایس آئی کو 50 روپے دیے لیکن وہ 100 روپے دینے پر اصرار کرتے رہے اور جب انہوں نے 100 روپے دینے سے انکار کیا تو انہیں دفتر سے چالان تھما دیا گیا۔

ٹریفک پولیس کی جانب سے رکشہ ڈرائیور کو 170 روپے کا چالان تھمایا گیا تھا، جس پر رکشہ ڈرائیور نے خود سوزی کی تھی، جسے فوری طور پر سول ہسپتال کے برنس وارڈ منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ 22 اکتوبر کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔

رکشہ ڈرائیور کی موت کے بعد مبینہ رشوت مانگنے والے ٹریفک پولیس اہلکار کے خلاف مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں