پیسوں کی ضرورت ہے، سعودی عرب کی دعوت ٹھکرا نہیں سکتے تھے، عمران

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2018
مدینہ کے گورنر شہزادہ فیصل بن سلمان نے ایئرپورٹ پر عمران خان اور ان کے وفد کا استقبال کیا— فوٹو: اے پی پی
مدینہ کے گورنر شہزادہ فیصل بن سلمان نے ایئرپورٹ پر عمران خان اور ان کے وفد کا استقبال کیا— فوٹو: اے پی پی

وزیر اعظم عمران خان نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی صحافی کے قتل کے باوجود پاکستان کو درپیش معاشی بحران کے پیش نظر ہم سعودی عرب سے اچھے تعلقات جاری رکھنا چاہتا ہیں۔

سعودی عرب کی معاشی پالیسیوں اور تنقید کے لیے مشہور سعودی صحافی جمال خاشقجی اپنی طلاق کی دستاویزات کو حتمی شکل دینے کے لیے ترکی میں موجود سعودی سفارتخانے گئے لیکن اس کے بعد سے لاپتہ ہو گئے۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟

ان کی گمشدگی کے بعد اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ خاشقجی کو سعودی سفارتخانے کے اندر ہی قتل کردیا گیا ہے لیکن سعودی عرب کی جانب سے مستقل اس بات کی تردید کی جاتی رہی۔

تاہم 2 ہفتوں تک شدید عالمی بحرانی صورت حال کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان نے سعودی عرب روانگی سے قبل غیرملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جمال خاشقجی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا سعودی حکومت کو جواب دینا ہو گا، ہم اس سلسلے میں سعودی عرب کی وضاحت کے منتظر ہیں اور امید ہے کہ وہ اپنی وضاحت سے لوگوں کو مطمئن کرنے میں کامیاب رہیں گے اور واقعے کے ذمے داران کو سزا ہو گی لیکن جو کچھ ہوا وہ بہت ہی افسوسناک اور انسانیت سوز ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم اگلے 2 ہفتوں میں 3 دوست ممالک کا دورہ کریں گے

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان، سعودی فرمان روا شاہ سلمان کی خصوصی دعوت پر سرمایہ کاری کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے ریاض پہنچ چکے ہیں۔

جمال خاشقجی کی ترکی کے شہر استنبول میں قونصل خانے کے اندر ہلاکت کے ردعمل میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور امریکی نمائندوں سمیت کئی ممالک نے کانفرنس کا بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے لیکن ‘ڈیووس ان ڈیزرٹ’ کے عنوان سے ریاض میں ہونے والی کانفرنس میں اب بھی کئی سرکردہ کاروباری شخصیات، سرمایہ کار، صنعت اور میڈیا اداروں کے نمائندے شرکت کریں گے۔

سعودی عرب میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے عمران خان اور ان کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کا موقف ہے کہ سعودی صحافی کے قتل کے خلاف پاکستان کو بھی عالمی برادری کی پیروی کرتے ہوئے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا۔

ضرور پڑھیں: جمال خاشقجی قتل: ’ہمیں نہیں معلوم کہ لاش کہاں ہے‘

تاہم وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ خاشقجی کے قتل کے باوجود سعودی عرب کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور پاکستان، سعودی عرب سے اچھے تعلقات جاری رکھنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک اس وقت شدید بحرانی صورتحال سے دوچار ہے اور ہمیں تاریخ کے بدترین قرضوں کا سامنا ہے لہٰذا ایسی صورت میں ہم اپنے پرانے دوست سعودی عرب کی جانب سے دی گئی دعوت کو ٹھکرا نہیں سکتے تھے۔

عمران خان نے کہا کہ میں نے کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ میں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں، 21کروڑ لوگوں کے ملک کو تاریخ کے بدترین قرضوں کا سامنا ہے اور ہمیں اس وقت پیسوں کی شدید ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک ہم اپنے دوست ملکوں سے قرض نہیں لیں گے، اس وقت تک ہمارے پاس قرضوں اور درآمدات کی ادائیگی کے لیے غیرملکی زرمبادلہ نہیں ہو گا لہٰذا جب تک ہمیں غیرملکی قرضہ یا سرمایہ کاری نہیں ملے گی، اس وقت تک ہمارے لیے مسائل ہی مسائل ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان، چین کے قرضوں کے باعث مشکلات میں پھنسا ہے، امریکا

25اگست کو عام انتخابات میں کامیابی کے ذریعے اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کے موجودہ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) کے پاس جانے کا اعلان کیا تھا تاکہ معاشی استحکام کے لیے عالمی ادارے سے 8 سے 12ارب ڈالر کا فنڈ حاصل کیا جا سکے۔

عمران خان کی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف جانے کے اعلان کے بعد ملکی روپے کی قدر میں مزید کمی دیکھنے کو ملی اور ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 136روپے تک پہنچ گیا جہاں ایک دن قبل اس کی مالیت 124رروپے تھی۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ چین اور آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج پاکستان کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے کیونکہ پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر مسلسل تنزلی کا شکار ہیں اور کرنٹ اکاؤنٹ حسارہ بھی بڑھ رہا جبکہ اسٹیٹ بینک کو روپے کی قدر میں کمی کرنا پڑی۔

گزشتہ کئی ہفتوں سے ماہر معاشیات خبردار کر رہے تھے کہ موجودہ خراب صورتحال اور کرنٹ اکاؤنٹ کے بحران کے پیش نظر ملکی روپے کی قدر میں کمی واقع ہو گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک پر چڑھے کھربوں روپے کے قرض کی ادائیگی اور درآمدات کی خریداری کی صلاحیت بھی بری طرح متاثر ہوگی۔

’پاکستان اب کسی اور کی جنگ کبھی نہیں لڑے گا‘

رواں سال کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی ہی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’امریکا نے پاکستان کو 15 سال میں 33 ارب ڈالر سے زائد امداد دے کر بے وقوفی کی، پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا جبکہ وہ ہمارے رہنماؤں کو بیوقوف سمجھتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے پاکستان کو 15 سال تک امداد دے کر بیوقوفی کی، ڈونلڈ ٹرمپ

اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کافی کشیدگی آئی اور امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے پرانے اتحادی سے ’ڈومور‘ کا مطالبہ کرتا رہا اور الزام عائد کرتا رہا ہے کہ پاکستان نے اپنے ملک میں شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی نہیں کی۔

جب ٹرمپ کے بیان کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اس کا جواب نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں وزیر اعظم نہ ہوتا تو اس معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار ضرور کرتا۔

تاہم وزیر اعظم نے واضح کیا کہ اب پاکستان، امریکا سمیت کسی کے بھی اصرار پر اپنے ہی لوگوں کے خلاف کبھی بھی فوج نہیں بھیجے گا بلکہ اس کی جگہ اس دلدل سے نکلنے کی راہ تلاش کرنی چاہیے جس میں امریکا، افغانستان میں پھنسا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا سیاسی حل ہونا چاہیے۔ میں نے 10سال قبل یہی بات کہی تو پاکستان سمیت عالمی میڈیا نے مجھے ’طالبان خان‘ کے لقب سے نواز دیا لیکن اب امریکا اور افغان حکومت سمیت اس بات پر متفق ہیں کہ اس جنگ کا سیاسی حل نکلنا چاہیے اور ماضی کے برعکس امریکا نے بھی اس بات کو سمجھتے ہوئے طالبان سے مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔

’کچھ فوجی ادوار جمہوری حکومتوں سے بہتر تھے‘

عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ماضی میں چند سول حکومتوں کے مقابلے میں جمہوری ادوار زیادہ بہتر تھے اور اب فوج سویلین حکومت کو فروغ اور اسے مکمل تحفظ فراہم کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: ’ملک میں جمہوری قوتیں کمزور ہوتی نظر آرہی ہیں‘

’میں آپ کو یہ کہنا چاہوں گا کہ گزشتہ 10سال کے دوران آصف زرداری اور نواز شریف کی حکومت کے دوران جتنا سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، اتنا جنرل ضیا کے دور میں بھی نہیں بنایا گیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں فوج کے عزائم کی غلط تصویر کشی کی گئی لیکن اس وقت سیاست میں فوج کے کردار کا انحصار صرف ایک فرد پر ہے جو آرمی چیف قمر جاوید باجوہ ہیں اور وہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ جمہوریت پسند ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں