ترک پولیس نے سعودی قونصل خانے کی متروکہ کار برآمد کرلی

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2018
کار استنبول میں ایک زیر زمین کار پارکنگ میں کھڑی کی گئی تھی—فوٹو: بشکریہ ترک میڈیا
کار استنبول میں ایک زیر زمین کار پارکنگ میں کھڑی کی گئی تھی—فوٹو: بشکریہ ترک میڈیا

استنبول: سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے تقریباً 3 ہفتوں بعد ترک پولیس نے استبول میں ایک زیر زمین کار پارکنگ سے سعودی قونصل خانے کی ایک متروکہ کار برآمد کرلی۔

ترک خبر رساں اداروں 'اناطولو نیوز' اور 'ٹی آر ٹی ورلڈ' کی رپورٹس کے مطابق مذکورہ کار سلطان غازی کے علاقے میں قائم ایک زیر زمین کار پارکنگ میں پائی گئی جس پر سفارتی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی۔

کار کی رجسٹریشن دستاویزات سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ یہ سعودی قونصل خانے کی ہے چنانچہ پولیس نے سعودی پراسیکیوٹر اور قونصل خانے سے کار کی تلاشی لینے کی اجازت طلب کرلی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی قتل: ’ہمیں نہیں معلوم کہ لاش کہاں ہے‘

ایک فوٹو گرافر کے مطابق کار پارکنگ کی جگہ پر میڈیا نمائندوں کی بڑی تعداد پہنچ گئی تھی جس کے بعد پولیس نے وہ جگہ خالی کروا کر کار تک پہنچنے کا راستہ روک دیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ترکی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کا قتل بے رحمی سے کرنے کا منصوبہ پہلے سے ترتیب دیا گیا تھا۔

بیان میں ترک حکام کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں کچھ بھی چھپا نہیں رہے گا جس سے سعودی عرب کے طاقتور ولی عہد محمد بن سلمان کی ساکھ کو خاصہ دھچکا پہنچ چکا ہے۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟

ریاض پر دباؤ ڈالتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے جمال خاشقجی کے قتل کے پیچھے چھپی حقیقت منگل کو (آج) منظر عام پر لانے کا اعلان کیا تھا۔

خیال رہے کہ امریکی اخبار وزشنگٹن پوسٹ سے وابستہ 59 سالہ صحافی کو 2 اکتوبر کو استنبول میں موجود سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے پر دنیا بھر سے دباؤ پڑنے پر 2 ہفتے تک مسلسل تردید کرنے کے بعد سعودی عرب سے اعتراف کرلیا تھا کہ جمال خاشقجی ایک لڑائی کے نتیجے میں قونصل خانے میں قتل ہوگئے تھے لیکن اس بیان کو سعودی اتحادی اور دوست ممالک نے ناکافی قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی شاہی خاندان میں بے چینی اور بڑی تبدیلیوں کے اشارے

مذکورہ معاملے میں سعودی معاشرے میں قدامت پسندی کے خلاف اصلاحات متعارف کروانے والے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے براہِ راست ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے تاہم ریاض سے جاری ہونے والے بیان میں اس بات کی تردید کی گئی کہ صحافی کے قتل کا حکم انہوں نے دیا تھا۔

ادھر امریکی نشریاتی ادارے کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں یہ بات سامنے آئی کہ سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے نکل جانے کے لیے ڈرامہ رچایا گیا اور کسی دوسرے شخص کو ان کے کپڑے پہنا کر باہر بھیجا گیا تاکہ یہ کہا جائے کہ صحافی قونصل خانے سے باہر چلے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: ’پرتشدد تفتیش کے دوران سعودی صحافی کے ٹکڑے کیے گئے‘

دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے مشیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنر نے سعودی ولی عہد سے مطالبہ کیا ہے کہ چونکہ پوری دنیا کی نظریں اس معاملے پر ہیں لہٰذا اس کی تحقیقات شفاف طریقے سے ہونی چاہیے۔


یہ خبر 23 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں