اطالوی ڈکٹیٹر بینیٹو مسولینی کو اب بھی کئی اطالوی اس حکمران کے طور پر یاد کرتے ہیں جس نے ’ٹرینی ٹائم پر چلائیں۔‘ اپنی کتاب Experiencing the War as ‘The Enemy Other’ میں وینڈی اگولینی نے لکھا کہ اقتصادی اور سیاسی بحران کے دور میں زیادہ تر اطالوی اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ مسولینی درحقیقت 20ویں صدی کے فاشزم کے بانی تھے جنہوں نے سیاست کے خلاف انتہائی جابرانہ اقدامات کیے اور اٹلی کو ایک تباہ کن جنگ میں دھکیلا۔ مگر اس کے بارے میں ان کا جواب عموماً یہی ہوتا ہے کہ ’ہاں، مگر انہوں نے ٹرینیں ٹائم پر چلائیں تھیں۔‘

3 اپریل 1994ء کو برطانوی اخبار ’دی انڈی پینڈنٹ‘ میں آئرش صحافی برائن کیتھ کارٹ نے وضاحت کی کہ مسولینی ’نے ٹرینیں ٹائم پر چلائیں‘ درحقیقت یہ کہنے کا ایک انداز تھا کہ ان کے ماتحت حکومت اور ریاست بالکل گھڑی کے انداز میں چل رہی تھیں۔

کیتھ کارٹ نے لکھا کہ یہ تاثر ایک دیومالائی قصے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا اور اسے مسولینی کی پروپیگنڈا مشین نے نہایت احتیاط کے ساتھ تیار کیا تھا۔

کیتھ کارٹ کے مطابق مسولینی یقینی بناتے تھے کہ ان کی تصویریں ٹرینوں کے آس پاس لی جائیں۔ مگر اگولینی اور کیتھ کارٹ لکھتے ہیں کہ درحقیقت اٹلی میں ٹرینیں کبھی بھی وقت پر نہیں چلیں۔

دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر یورپ میں مطلق العنان حکومتوں کا رعب اور طاقت ماند پڑگئی تھی۔ امریکا اور یورپ میں جنگ کے بعد اقتصادی تیزی کی وجہ سے حکومتوں کو عوامیت پسندی میں الجھے بغیر معاشی اور سماجی پالیسیاں تیار کرنے کا موقع ملا۔ وہ عوام میں زندگی کے مختلف سماجی، سیاسی اور اقتصادی پہلوؤں کے بارے میں حقیقی آگاہی پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ نتیجتاً عوام نے رضاکارانہ طور پر 'ذمہ دار' سماجی رویوں پر عمل کرنے کا عہد کرلیا۔

مسولینی کی جانب سے اپنی حکومت کی مؤثر کارکردگی کی مثال کے طور پر ’ٹرینیں ٹائم پر چلنے‘ کے دیومالائی قصے کی تیاری کو دیکھتے ہوئے مختلف ایشیائی ممالک میں دیگر سیاسی قوتوں نے بھی یہی کام کیا۔ ایشیا سب سے بڑا برِ اعظم ہے اور اس میں دنیا کے سب سے آبادی والے اور گنجان آباد ممالک ہیں۔ ان میں سے کئی ممالک میں انفراسٹرکچر کے سنجیدہ مسائل سے دوچار بڑے بڑے شہر ہیں۔ ان میں سے کئی شہر تو انتہائی غلیظ بھی ہیں۔

چنانچہ دہائیوں تک کئی ایشیائی حکمرانوں نے سماجی، سیاسی اور اقتصادی کچرے کو صاف کرنے کی اپنی نیت کا اظہار صفائی مہمات کے ذریعے کیا ہے جس میں سربراہِ حکومت جھاڑو لیے سڑک پر کھڑا ہوتا ہے۔ وہ درحقیقت جو پیغام دینا چاہ رہے ہوتے ہیں وہ یہ ہوتا ہے کہ ’میں یہاں چیزیں صاف کرنے کے لیے آیا ہوں۔‘

مثال کے طور پر پاکستان میں تجاوزات کے خلاف پہلی مہم کو دیکھیں۔ یہ ایوب خان کی حکومت کے آغاز (1969-1958) میں ہوئی۔ ان کا اعلان تھا کہ وہ کرپٹ افراد، ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف ایکشن لیں گے اور کچھ ہی عرصے بعد کراچی، لاہور اور ڈھاکہ کے مصروف بازاروں میں 'تجاوزات' کو گراتی ہوئی بلڈوزروں کی تصاویر آنے لگیں۔

جب دسمبر 1971ء میں ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے، تو انہوں نے (مشرقی پاکستان سانحے کے نتیجے میں ٹوٹ چکے پاکستان کے) ’ٹکڑے اٹھانے‘ کا وعدہ کیا۔ کراچی کا گرد آلود سا چہرہ انہیں ٹوٹ چکے پاکستان کی یاد دلاتا تھا۔ مؤرخ اسٹینلے وولپرٹ نے بھٹو کی اپنی تفصیلی سوانح عمری میں ان کئی خطوط کا تذکرہ کیا ہے جو وزیرِاعظم بھٹو نے اس وقت سندھ کے وزیرِ اعلیٰ ممتاز بھٹو کو لکھے تھے کہ وہ کراچی کو صاف کریں اور اس کی ’ماضی کی شان و شوکت بحال کریں۔‘

مگر بھٹو کے نزدیک اس کے لیے صفائی مہم جیسے نمائشی اقدامات کی ضرورت نہیں تھی، بھلے ہی ان کی حکومت نے 1974-1973 میں کراچی کے لیے ایک ’بیوٹی فکیشن منصوبہ‘ شروع کیا تھا جس کے تحت شہر کی کچی آبادیوں کے گرد دیواریں کھڑی کردی گئی تھیں۔

1975ء میں اندرا گاندھی کی کانگریس حکومت نے احتجاجوں اور کرپشن کے الزامات کے بعد ایمرجنسی نافذ کردی۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد اندرا گاندھی نے اعلان کیا کہ وہ ملک کو صاف کریں گی اور ’ہندوستان کو دشمنوں‘ سے نجات دلائیں گی۔

اس اعلان کے فوراً بعد ہی نچلی ذات کے ہزاروں ہندوستانیوں کی نس بندی کی مہم شروع کی گئی جس کا بہت ڈھنڈورا بھی پیٹا گیا (تاکہ ہندوستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کیا جاسکے)۔ اس مہم کا الٹا نقصان تب ہوا جب دہلی کی کچی آبادیوں میں فسادات پھوٹ پڑے۔

جولائی 1977ء میں جب جنرل ضیا نے فوجی بغاوت کے ذریعے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا تو انہوں نے بھی صفائی کا وعدہ کیا۔ بھلے ہی ان کے نزدیک صفائی کا مطلب اپنے مخالفین کی گرفتاری اور عوام کے سامنے انہیں کوڑے لگانا تھا، مگر ان کے اس ارادے کا پہلا اظہار ان کی جانب سے سرکاری اداروں مثلاً کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کو ایک حکم نامہ تھا کہ ’شہر کو مناسب انداز میں صاف کیا جائے۔‘

کراچی میں 1987ء میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ابھرنے کے بعد پارٹی اکثر صفائی مہم کا آغاز کرتی۔ دائیں بازو کے چند اردو اخبارات بار بار ان مہمات کے بارے میں کہتے کہ پارٹی ’[کراچی سے] غیر مہاجروں‘ کا صفایا چاہتی ہے۔

دوسری جانب ڈچ محقق آسکر ورکائیک اکتوبر 2016ء میں جرنل آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز میں شایع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ کراچی میں لسانی فسادات کے دوران شہر میں کچرا جمع ہوجاتا تھا۔ چنانچہ جب 1992ء میں ریاست نے ’کراچی کو فسادیوں سے پاک‘ کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے اسے ’آپریشن کلین اپ‘ کا نام دیا کیونکہ کچرا کراچی کی سیاست کا عکاس تھا۔

حال ہی میں فلپائن کے عوامیت پسند صفر روڈریگو ڈیوٹرٹ اور پاکستانی وزیرِاعظم عمران خان نے اپنے اپنے ممالک سے کرپشن کے صفائے کا وعدہ کیا ہے۔ حیرانی کی بات نہیں کہ اس کی ابتدا صفائی مہمات سے ہوئی جس میں وزیرِاعظم ڈیوٹرٹ اور وزیرِاعظم خان دونوں ہی جھاڑو لیے سڑک پر نظر آئے۔ فلپائنی محقق اور ایشین اسٹڈیز: جرنل آف کریٹیکل پرسپیکٹیوز آن ایشیا کے مینیجنگ ایڈیٹر، جانس آئیزک نولاسکو اسے ’صفائی کی سیاست‘ کہتے ہیں جس میں حکمران درحقیقت حکومت کے کچھ کم صاف پہلوؤں کی صفائی کے زاویے سے توجیہہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔

جولائی 2018ء کے اپنے ایک مضمون میں نولاسکو نے لکھا کہ حکومت کی جانب سے سڑکوں کی صفائی ایک ایسا منظر ہوتا ہے جس کا غلیظ تصور کیے جانے والے ممالک کے لوگوں پر عجیب اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ صفائی کی سیاست ’عوام میں ایسا خوش کن تاثر پیدا کرتی ہے جس میں صفائی کی لگن، ترقی، کارکردگی اور نظم و ضبط کی علامت ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یہ غلاظت سے نفرت کی علامت ہے جسے عموماً غربت، جرائم اور بدامنی سے منسلک کیا جاتا ہے۔‘

مگر حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر ممالک میں سیاسی، سماجی، اقتصادی اور حقیقی کچرے کی صفائی کبھی ممکن نہیں ہو پاتی۔ چنانچہ ایسے سماجی اقتصادی اور سیاسی ماحول کی ضرورت ہے کہ معاشرہ ہاتھ میں جھاڑو پکڑی ہوئی حکومت کے نمائشی اقدامات کے بجائے اسے اپنا عزم بنالے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 21 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں