سندھ کے ضلع تھرپارکر میں غذائی قلت اور وائرل انفکیشن کے نتیجے میں گزشتہ 3 روز میں 9 نوزائیدہ بچے جاں بحق ہوگئے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ ہلاکتیں مٹھی، دھالی اور چھاچھرو کے علاقوں میں ہوئیں۔

مزید پڑھیں : تھر: غذائی قلت سے مزید 4 نومولود جاں بحق

غذائی قلت اور وائرل انفکیشن کی وجہ سے رواں برس نوازئیدہ بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد 522 ہو گئی۔

متاثرہ بچوں کے والدین نے سرکاری ہسپتالوں میں زندگی بچانے کے لیے ضروری ادویات سمیت دیگر سہولیات کی عدم دستیابی کی شکایت کی۔

والدین نے ان کی گھر کی دہلیز پر صحت کی بہتر سہولیات پہنچانے کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ وہ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں اور اپنے بچوں کے علاج کے لیے اپنے علاقے سے میلوں دور مٹھی میں جانا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : مٹھی میں غذائی قلت، 7 بچے جاں بحق

اس حوالے سے کہا گیا کہ’تھر کے ہزاروں شہری کنووں کا آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جبکہ خطرناک موسمی صورت حال کے باوجود کئی میل کا سفر کرکے جانا پڑتا ہے'۔

انہوں نے بتایا کہ ضلعی سطح پر نصب کیے گئے آر او پلانٹس کی انتظامیہ کو بھی پانی کے حصول لیے دیگر علاقوں کا رخ کرنا پڑ رہا ہے۔

ڈپٹی کمشنر تھر محمد آصف جمال نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے وسیع پیمانے پر ریلیف آپریشن شوع کردیا اور ضلع بھر میں حاملہ خواتین کو راشن کے بیگ فراہم کیے جارے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ غیر سرکاری اور حکومتی اداروں کے اعداد و شمار کی روشنی میں روشن کی فراہمی جارہی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جاں بحق ہونے والے متعدد بچے پیدائشی طور پر صحت مند نہیں تھے جس کی ایک بڑی وجہ چھوٹی عمر میں شادیاں ہیں۔

اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ میڈیا کو تھر میں نومولود بچوں کی موت سے متعلق خبریں نشر کرنے سے قبل ماہرین کے آراء کو ضرور اہمیت دیں۔

مزید پڑھیں: تھر میں بچوں کی اموات: سندھ ہائی کورٹ کارپورٹ پرعدم اطمینان

محمد آصف جمال نے کہا کہ ڈاکٹروں پر مشتمل متعدد ٹیمیں گاؤں کے دورے پر ہیں جہاں تھرکے شہریوں کو طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔

تھر میں بچوں کی صحت اور غذا کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ہینڈز کے سربراہ ڈاکٹر شیخ تنویر احمد سمیت ماہرین صحت اور بچوں کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ تھر میں کم عمری میں شادی، بچوں کی غذائی قلت، غربت اور دیگر مسائل نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کے اسباب ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں