اتوار کو برازیل میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے راؤنڈ میں یہ بات تقریباً طے ہوچکی ہے کہ دائیں بازو کی انتہائی ناپسندیدہ شخصیت ژائر بولسونارو (Jair Bolsonaro) اقتدار میں آجائیں گے۔

برازیل جنوبی امریکا کا سب سے بڑا ملک اور دنیا کی چوتھی بڑی جمہوریت ہے، لیکن اب اس بات کا خدشہ بہت بڑھ گیا ہے کہ یہ اعزاز اور یہ رتبہ اب برازیل کے پاس زیادہ عرصے شاید برقرار نہ رہ سکے، کیونکہ ژائر بولسونارو فوجی آمریت کی کھلے لفظوں میں تعریف کرچکے ہیں۔ مگر فی الوقت ووٹوں کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے اور لگتا ہے کہ وہ ان میں سے زیادہ تر حاصل کرلیں گے۔

درحقیقت اس ماہ کے آغاز میں ہونے والے پہلے راؤنڈ میں بولسونارو 46 فیصد سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرکے جیت کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں۔ جبکہ ان کے مدمقابل ورکرز پارٹی (پی ٹی) کے فرنانڈو حداد (Fernando Haddad) دُور دوسرے نمبر پر ہیں جنہوں نے محض 29 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔

ژائر بولسونارو
ژائر بولسونارو
فرنانڈو حداد
فرنانڈو حداد

بولسونارو نے اپنے جن خیالات کا کھلے عام اظہار کیا ہے، اس سے ان کے عورت مخالف، ہم جنس پرستی کے مخالف اور نسل پرست ہونے کا پتا چلتا ہے۔ وہ ماحول دوستی کے گہرے دشمن ہیں اور امازون کے جنگلات کی کٹائی کے فروغ پر آمادہ ہیں۔ وہ ہر گھر تک بندوق پہنچانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنا رخ تیزی سے نیو لبرل اقتصادیات کی جانب موڑا ہے اور شکاگو کی یونیورسٹی میں ان کے ایڈوائزر برازیل کے سرکاری شعبے کی مکمل نجکاری کا منصوبہ تیار کیے بیٹھے ہیں۔ ظاہر ہے کہ قوم کی صنعتی اشرافیہ اس مقصد میں ان کے ساتھ ہے۔

مگر ان میں سے کسی بھی چیز سے پتا نہیں چلتا کہ وہ عوام میں کیوں مقبول ہیں۔ ان کو ووٹ دینے کے خواہشمندوں میں سے ایسے کئی ہیں جو ان کے بیانیے کی مذمت کرتے ہیں مگر امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اقتدار کی حقیقتیں انہیں ان کے بدترین ارادوں سے روک دیں گی۔ لیکن انہیں زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہیئں۔

ان کے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کافی چیزیں ایک جیسی ہیں، مگر بھلے ہی امریکا کا چیک اینڈ بیلنس کا نظام ناکافی ہو مگر یہ کم از کم کام ضرور کرتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے برازیل کے متعلق کم ہی امید رکھی جاسکتی ہے جو امریکا نواز جنرلوں کی دو دہائی طویل آمریت کے بعد جمہوریت میں صرف 1980ء کی دہائی میں ہی ڈھلنا شروع ہوا ہے۔ ان جنرلوں کا آہنی ہاتھ ملکی معاملات سے لے کر پورے برِاعظم میں ہم خیال حکومتوں کے ساتھ تعاون تک پھیلا رہا جس میں آگسٹو پینوشیٹ (Augusto Pinochet) کی زیرِ حکومت چلی (Chile) بھی شامل ہے۔

چلی میں 1964ء کی فوجی بغاوت ایک ایسے صدر کے خلاف تھی جس کے بارے میں انتہائی دائیں بازو کا خیال تھا کہ وہ انتہائی بائیں جانب ہے۔ 4 دہائیوں بعد پی ٹی کے لوئیز اناشیو لولا ڈا سلوا (Luiz Inácio Lula da Silva) کا اقتدار میں آنا ان لوگوں کے چہروں پر زناٹے دار تھپڑ کی طرح لگا ہوگا جو فاشسٹ ماضی، بشمول بولسونارو کو مثالی قرار دیتے ہیں۔ بولسونارو سابق فوجی کپتان ہیں جنہوں نے بدنام ہو کر فوج چھوڑی مگر حالیہ کچھ عرصے پہلے تک بھی برازیلی سیاست کے انتہائی دائیں بازو کے حلقوں میں مضحکہ خیز مانے جاتے تھے۔

بھلے ہی لولا کو درست طور پر اس گلابی لہر (سوشلسٹ تحریک) کا حصہ قرار دیا جاتا ہے جس نے وینزویلا میں ہیوگو شاویز (Hugo Chávez) کے حکومت میں آنے کے بعد لاطینی امریکا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا، مگر پھر بھی لولا کی اصلاح پسندی ہیوگو شاویز کے اقدامات کی بہ نسبت کافی معتدل تھی، جس کی وجہ سے لولا کو بائیں بازو کے دانشوروں کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دوران انہوں نے وسیع پیمانے پر تقسیمِ نو کے مقاصد کے حصول کے لیے کام کیا جس سے ضرورت مندوں کی کافی امداد ہوئی اور جب انہوں نے 2 مرتبہ میعاد مکمل کرنے کے بعد حکومت اپنی جماعت ہی کی ڈلما روزیف (Dilma Rousseff) کو سونپی، تو اس وقت ان کی مقبولیت بے مثال طور پر 84 فیصد تھی جس کی وجہ سے امریکی صدر باراک اوبامہ بھی حاسدانہ حیرت کا اظہار کر بیٹھے۔

برازیل کے سابق صدر لوئیز اناشیو لولا ڈا سلوا اور ڈلما روزیف
برازیل کے سابق صدر لوئیز اناشیو لولا ڈا سلوا اور ڈلما روزیف

جب 2016ء میں ذاتی کرپشن کے بجائے بجٹ کے تکنیکی امور پر روسیف کا احتساب کیا گیا (پارلیمنٹ میں تحریک پر بولسونارو نے تقریر کی اور تقریر فوج کے بدنام ترین متشدد دور کے نام کی جس کے شکار لوگوں میں سے ایک خود روزیف بھی تھیں) تو اس وقت بھی مقبول لولا ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور رائے عامہ کے سروے یہ دکھانے لگے کہ وہ آسانی سے جیت جائیں گے۔

مگر انہیں اس کا موقع نہیں دیا گیا کیونکہ رواں سال کے آغاز میں کرپشن الزامات پر انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ ان پر جو الزامات لگے ان میں سے ایک مرکزی الزام یہ ہے کہ انہوں نے ایک تعمیراتی فرم کو مراعات کے بدلے ایک مفت اپارٹمنٹ حاصل کیا۔ اس الزام کا کسی بھی طرح سے پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے انکشافات سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا اور ان الزامات کی تصدیق ہونی ابھی باقی ہے۔ جب ایک مرتبہ عدالتوں نے لولا کو بطور امیدوار نااہل کردیا تو پی ٹی نے ساؤ پاؤلو کے سابق میئر فرنانڈو حداد کو صدارتی امیدوار نامزد کردیا۔

یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ ووٹر کیوں اپنا جوش و جذبہ لولا کے بجائے حداد کو منتقل کرنے میں ہچکچائیں گے، کیونکہ حداد میں لولا جیسا کرشمہ نہیں اور نہ ہی ان کا ریکارڈ لولا جتنا متاثر ہے۔ اس سے زیادہ مشکل ایک فاشسٹ کو حاصل پذیرائی سمجھنا ہے جس کے تحت برازیل شاید اسی بین الاقوامی زمرے میں شامل ہوجائے گا جس میں روڈریگو ڈیوٹرٹ (Rodrigo Duterte) کے زیرِ حکومت فلپائن ہے۔

ظاہر ہے کہ کئی دیگر مماثلتیں بھی ہیں جو بولسونارو کے حامی اسٹیفن بینن اچھی طرح جانتے ہیں جو ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس اور بریٹ بارٹ میڈیا میں رہ چکے ہیں اور جن کی ساری توانائیاں اس وقت یورپ میں فاشزم کو حیاتِ نو بخشنے میں صرف ہو رہی ہیں۔

شاید سب سے اہم سوال یہ ہے کہ طویل عرصے سے برازیلی معاشرے میں موجود مجرمانہ تشدد اور سیاسی کرپشن سے چھٹکارہ پانے کی چاہ میں برازیلیوں کی اکثریت کیوں ایسے شخص کی حمایت پر اتر آئی ہے جو انسان کی بدترین فطرت پر مائل ہے۔

ظاہر ہے کہ وہ ایسے پہلے ووٹر نہیں جنہیں اس راستے کے لیے قائل کیا گیا ہے، اور افسوس ہے کہ وہ ایسے آخری بھی نہیں ہوں گے۔ مگر آنے والے سالوں میں شدید افسوس کرنے کے مواقع کی بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 24 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں