بھارت کے شہر اترپردیش میں پولیس نے بیوی کو بیک وقت تین طلاق دینے پر شوہر کو گرفتار کرلیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس 22 اگست کو بھارت کی اعلیٰ عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں مسلمان مردوں کی جانب سے ایک ہی وقت میں 3 طلاق کے عمل کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: تین بار طلاق کی پابندی پر بولی وڈ اسٹارز بول پڑے

کورٹ کے ججز کے ایک پینل نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ تین طلاق کا عمل مذہب میں لازم نہیں اور اخلاقی طور پر یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔

خیال رہے کہ بھارت میں ایک ساتھ تین طلاق دینے پر یہ پہلی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔

ٹائمز آف انڈیا میں شائع رپورٹ کے مطابق ادھر اترپردیش میں 32 سالہ عارف حسین کی جانب سے ایک ساتھ تین طلاق دینے پر ان کی اہلیہ مقامی تھانے میں پہنچ گئی۔

پولیس نے اہلیہ کی درخواست پر مسلم وومن (پروٹیکشن رائٹس آن میرج) آرڈیننس کے تحت مقدمہ درج کرکے عارف حسین کو گرفتار کرلیا۔

پولیس کے مطابق عارف حسین کے خلاف مقدمے میں آئی پی سی کے تحت خواتین پر تشدد کا کیس بھی شامل کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے پولیس نے بتایا کہ خاتون کی عارف حسین کے ساتھ 10 برس قبل شادی ہوئی تھی۔

مزیدپڑھیں: بھارت: ایک ہی وقت میں تین طلاق کا عمل غیر آئینی قرار

متاثرہ خاتون نے پولیس کو بتایا کہ شادی کے دوسال تک سب ٹھیک رہا لیکن دو بچوں کی پیدائش کے بعد موٹاپا بڑھنے لگا تو شوہر اور ان کے اہلخانہ نے ناپسندیدگی کا اظہار شروع کردیا اور ہراساں بھی کیا گیا۔

خاتون کے مطابق 11 اکتوبر کو عارف حسین اور ان کی والدہ نے گھر سے دھکے دے کر نکال دیا تھا اور اگلے روز دونوں میکے آئے اور عارف حسین نے ایک ساتھ تین طلاق دے دی۔

بھارتی قوانین کے مطابق بیک وقت تین طلاق دینے پرشوہرکو 3 سال قید ہو سکتی ہے۔

خیال رہے کہ مسلم قوانین کے مطابق خاوند اپنی اہلیہ سے رشتہ ختم کرنے کے لیے 3 مرتبہ طلاق کے الفاظ کہتا ہے تاہم اس حوالے سے مسلم اسکالرز میں متضاد رائے پائی جاتی ہے، کچھ کا ماننا ہے کہ مرد کی جانب سے ایک ہی مرتبہ طلاق کے الفاظ تین مرتبہ کہنے سے یہ رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہندوستان : ’بیک وقت تین طلاقیں خواتین کے حقوق کے خلاف‘

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے چیف جسٹس جے ایس کھیہر نے حکومت سے ملک کی مسلم کمیونٹی کی شادی اور طلاق سے متعلق 6 ماہ میں قانون سازی مکمل کرنے کو کہا ہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پینل میں بھارت میں بسنے والے بیشتر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ججز موجود تھے جن میں ہندو، مسلمان، سکھ، مسیحی اور دیگر شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مذہب کے تحت کیا جانے والا گناہ قانون کے تحت مؤثر نہیں ہوسکتا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں