لکھاری اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں.
لکھاری اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں.

اگلے ہفتے وزیرِاعظم عمران خان چین کا دورہ کررہے ہیں، جو ہمارا نہایت اہم اسٹریٹجک ساتھی ہے۔

یہ دورہ ایک بہت ہی نازک دور میں ہونے جا رہا ہے کہ جب امریکا کی جانب سے چین اور روس کے خلاف ایک نئی سرد جنگ کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد وجود میں آنے والے عالمی نظام کو ٹرمپ انتظامیہ نے تار تار کردیا ہے۔ اب امریکا اور دیگر بڑے ممالک عالمی قانون کو بالائے طاق رکھ کر چھوٹے ملکوں کے خلاف یک طرفہ طاقت کا استعمال، زور زبردستی اور مداخلت کرتے ہیں۔ عالمی تجارتی حکومت کو ریزہ ریزہ کیا جا رہا ہے اور یوں مالیاتی نظام دباؤ کا شکار ہے۔

ان مشکل حالات میں، پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات اسے اپنی سیکورٹی اور خارجہ پالیسی اور اپنی سماجی و معاشی ترقی کو ضروری سہارا فراہم کرتے ہیں۔ چین پاکستان کی دفاعی ضروریات کو پورا کرتا ہے، پاکستان کا انفرا اسٹریکچر تعمیر کر رہا ہے، اس کے علاوہ ہندوستانی جارحانہ رویے اور امریکی دھمکیوں کے خلاف ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔

اگرچہ پاک چین تعلقات چٹانوں کی طرح مضبوط ہیں، لیکن چونکہ موجودہ زمینی و سیاسی حالات میں پاکستان اور چین اپنے دشموں کے ہاتھوں جن خدشات اور دباؤ کا مقابلہ کر رہے ہیں اس کے پیش نظر دونوں کو اپنے اسٹریٹجک شراکت داری کو بہت ہی مضبوط سطح پر لے جانے کی انتہائی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

وزیرِاعظم کے دورہ چین کی راہ چند ہفتے قبل پاکستان کے آرمی چیف نے ہموار کی تھی جنہوں نے اطلاعات کے مطابق بیجنگ میں دونوں ملکوں کے مابین دفائی اور سیکورٹی تعاون کو مزید بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ بلاشبہ اہم ترین سیکورٹی تعاون کے حوالے سے حتمی فیصلوں کا اعلان وزیرِاعظم اور چینی رہنماؤں کو ہی کرنا ہے۔

دونوں ملکوں کو اس وقت جن سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے اس کے لیے دونوں کو ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے۔ چین، بحیرہ جنوبی چین میں میری ٹائم تنازعات، ون چائنہ پالیسی اور تائیوان، اور ژن جیانگ میں اوئی غر (Uighur) انتہاپسندوں کی جانب سے علیحدگی کے اٹھتے خدشے پر پاکستان کی حمایت چاہے گا۔

پاکستان کے خلاف امریکی اور ہندوستانی دباؤ اور دھمکیوں کے خلاف پاکستان کو اپنے اہم سیکورٹی چیلنجز پر چین کی طرف سے مزید بڑھ کر زبانی حمایت درکار ہے۔ چین کو پاکستان پر طاقت اور اقتصادی دباؤ کی دھمکیوں پر مذمت کا اظہار کرنا چاہیے، بین الاقوامی قانون کے مطابق جموں کشمیر مسئلے پر ایک پُرامن حل کا مطالبہ کرنا چاہیے اور سی پیک منصوبے کو ختم کرنے کی دھمکیوں کی مخالفت کرنی چاہیے۔ افغانستان میں سیاسی حل کو فروغ دینے کے لیے چین کا کردار نہایت اہم ہے، جس کے لیے چین افغانستان کی ترقی میں مدد فراہم کرے اور سی پیک اور بیلٹ روڈ جال میں شامل کرے۔

عمران خان کے دورہ چین کے ایجنڈے کا محور ممکنہ طور پر اقتصادی مسائل ہوں گے۔ گزشتہ ہفتے وزیرِاعظم کی جانب سے حکمتِ عملی اور ہوشیاری کے ساتھ سعودی سرمایہ داری کانفرنس میں شرکت کے دوران بڑی ہی خوش آئند سعودی مالیاتی مدد حاصل ہونے کے باوجود بھی پاکستان کو چین سے ایک بڑی رقم درکار ہے۔ یہ چند صورتوں میں ممکن ہوسکتا ہے: ڈالر ڈیپازٹ، نرم قرضے، تجارتی (کمرشل) کریڈٹ اور سی پیک منصوبے پر پہلے سے سے زیادہ بڑے وعدوں کی صورت میں۔ پاکستان جن شرائط پر آئی ایم ایف پیکج کو حاصل کرنا اور منظور کروانا چاہتا ہے، چین اس معاملے پر کافی مثبت انداز میں اثرانداز بھی ہوسکتا ہے۔

وزیرِاعظم عمران خان کو شنگھائی میں ہونے والے چائنا ٹریڈ ایکسپو میں بطور ‘مہمانِ خصوصی‘ مدعو کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کی درآمداتی اور پیداواری صلاحیتوں کو پیش کرنے کے لیے جو کوششیں کی جائیں گی اس کی وزیراعظم سربراہی کریں گے۔

بدقسمتی سے یہ صلاحیتیں اس وقت محدود ہیں اور انہیں مناسب تجارتی اور صنعتی پالیسیوں کے ذریعے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ چین اس مرحلے میں کافی اہم کردار ادا کرسکتا ہے، مثلاً، اپنے چند غیر مسابقتی مینوفریکچرنگ صلاحیتوں اور وہ جو نئی مغربی تجارتی رکاوٹوں کا سامنا کر رہی ہیں انہیں ایک شعوری جدوجہد کے ذریعے پاکستان منتقل کردیا جائے۔ پاکستان کے زرعی شعبے کی مشترکہ ترقی اور زرعی اجناس اور پراسس شدہ اشیا کی چین برآمدات سے بھی باہمی تجارت، تیزی کے ساتھ پیداوار اور پاکستان میں روزگار بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔

عمران خان کے لیے اب یہ ضروری ہے کہ وہ پاکستان کی سی پیک پر لگن اور خلوص کے حوالے سے کسی بھی قسم کے شکوک شبہات کو ختم کردے۔ یہ منصوبہ صدر ژی جن پنگ کے بیلٹ روڈ منصوبے (بی آر آئی) کا ‘فلیگ شپ’ ہے۔ اگر امریکا اور اس کے دوست، بشمول بھارت، سی پیک کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ نقصان چین، اس کے رہنماؤں اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے ایک بڑی ناکام خارجہ پالیسی کے برابر ہوگا۔

بی آر آئی منصوبہ جس قدر چین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اتنا ہی ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی اہم ہے۔ ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو انفرا اسٹریکچر پر سالانہ 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑتی ہے۔ امریکا اور مغرب یا تو مالی ضرورت کو پورا کرنے کی حالت میں نہیں یا پھر کرنا نہیں چاہتے لیکن دوسری طرف چین یہ کام کر رہا ہے۔ مغرب کی جانب سے بی آر آئی کی مخالفت دراصل ’ڈاگ ان دی مینیجر‘ (dog-in-the-manger) کے مترادف ہے یعنی ایک ایسے شخص کی طرح جو بُخل سے کسی ایسی چیز پر اپنا قبضہ جمائے رکھتا ہے جو اس کے کسی فائدے کی نہ ہو۔

بی آر آئی کی ’قرضہ ڈپلومیسی‘ کے طور پر تنقید دراصل مغرب کی صد سالہ پرانی غریب تر ملکوں کے رہنماؤں کے ساتھ سمجھوتے اور وسائل پر ’قبضے‘ کی حکمت عملی دکھا کر ہوائی اندازوں کے سوائے کچھ نہیں۔ سرکاری منصوبوں کے لیے چین کی جانب سے قرضہ انتہائی نرم شرائط پر فراہم کیا جاتا ہے۔

سی پیک میں شامل تمام منصوبے پاکستان میں آنے والے مسلسل آنے والی حکومتوں کے منتخب کردہ ہیں۔ گوادر پورٹ، روڈ اور ریل کے لنکس، تیل اور گیس پائپ لائنز، ان سب کا تعین مشرف حکومت کے دوران ہوا جبکہ اس میں توانائی کے منصوبے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شامل کروائے۔ ان میں سے زیادہ تر منصوبے پاکستان میں صنعت کاری اور اقتصادی پھیلاؤ میں پاکستان کو آگے لے جانے میں مدد کریں گے۔

جیسا کہ پہلے سے یہ طے ہے کہ سی پیک کا اسکوپ مستقبل میں مزید وسیع کیا جائے گا۔ خصوصی اقتصادی زونز برق رفتار صنعت کاری اور برآمدات کے پھیلاؤ کا موقع فراہم کرسکتے ہیں۔ سی پیک ’سماجی انفرا اسٹریکچر‘، جیسے تعلیمی ادارے، صحت مراکز، کوڑا کرکٹ اور گندے پانی کے ٹریٹمنٹ پلانٹس، عوامی سہولیات، ہاؤسنگ منصوبوں اور ماحولیاتی تحفظ کے منصوبوں کو بھی اپنے اندر شامل کرسکتا ہے۔

پاکستان اور چین دونوں نے سی پیک میں تیسرے ملک کی شراکت کے لیے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ گوادر میں سی پیک منصوبوں کے ساتھ سعودی سرمایہ کاری کی آمد بھی ہوگی۔ چند مغربی کمپنیاں تو پہلے ہی اس میں حصہ لے رہی ہیں اور سی پیک منصوبوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

جنرل الیکٹرانک پنجاب میں نصب گیس پر چلنے والے 3 پاور پلانٹ کو ٹربائنز فراہم کرچکی ہے (جس نے اپنے ’ابتدائی مرحلے میں آنے والے مسائل‘ کی وجہ سے اپنا کام شروع کرنے کے عمل کو تقریباً ایک سال تک مؤخر کردیا ہے)۔ 4 تھرکول کے منصوبے میں بھی جی ای ٹربائنز کو استعمال کیا جائے گا، اور امید ہے جس سے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔

سی پیک پر عمل درآمد کو تیز تر بنانے مثلاً سی پیک منصوبوں کو ترجیح دینے، فنانسنگ کی شرائط پر متفق ہونے، منصوبے کے وقت پر ہونے والے کام کا جائزہ لینے اور عوام اور پارلیمنٹ کو آگاہ رکھنے کے لیے ٹرانسپورٹ اور جامع میکنیزم کو قائم کرنا پاکستان اور چین دونوں کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔

اسٹریٹجک شراکت داری کی متوقع مضبوطی کسی تیسرے ملک کے خلاف اتحاد کے طور پر نہیں ہوگی (مثلاً امریکا اور ہندوستانی اتحاد، جس کا مقصد چین کا محاصرہ کرنا ہے) بلکہ پاکستان اور چین کی مضبوط شراکت داری دونوں ممالک کو بتدریج اتھل پتھل کی جانب جاتی دنیا میں لاحق گوناگوں چیلنجرز کا اعتماد سے سامنا کرنے میں مدد دے گی۔ چین کے نزدیک چیلنج کا مطلب بھی موقع ہے۔ اسی لیے تو چیئرمین ماؤ نے کہا تھا کہ 'فی الوقت حالات شدید ابتر ہیں اور یہ صورتحال بہترین ہے۔‘

یہ مضمون ڈان اخبار میں 28 اکتوبر 2018 کو شایع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Murad Nov 01, 2018 04:32pm
Agree with most things above however, General Electric is listed in New York Stock Exchange and Trump can easily influence it to stop selling spare parts and further power generation equipment to any countries that sign up to the one belt one road project.