پی اے سی چیئرمین شپ پر اختلافات،قومی اسمبلی کی کمیٹیوں کے قیام میں تاخیر

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2018
حکومت اور اپوزیشن کے سخت رویے سے اسپیکر کو مشکلات کا سامنا ہے— فائل فوٹو
حکومت اور اپوزیشن کے سخت رویے سے اسپیکر کو مشکلات کا سامنا ہے— فائل فوٹو

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی چیئرمین شپ کے معاملے پر جاری اختلافات کا اثر پارلیمنٹ کی سرگرمیوں پر پڑنا شرع ہوگیا اور اپوزیشن کے بائیکاٹ کی دھمکی کے پیش نظر قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر دیگر کمیٹیاں قائم کرنے سے قاصر ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں موجود ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے اس معاملے پر ’سخت رویے‘ کے باعث اسپیکر اسد قیصر کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے اور دونوں طرف سے کوئی بھی اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔

ایک طرف جہاں اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ پارلیمانی روایت کے تحت 'پی اے سی' کی چیئرمین شپ انہیں دینی چاہیے جبکہ اس سلسلے میں انہوں نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو نامزد بھی کردیا ہے۔

دوسری جانب حکمراں جماعت تحریک انصاف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ اپوزیشن کو دینے کی خواہش مند نہیں ہے کیونکہ ان کا موقف ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کو ان کے اپنے دور حکومت کے منصوبوں کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

مزید پڑھیں: ‘پی اے سی کی سربراہی اپوزیشن کو دینا لومڑی کو ڈربے کی رکھوالی کے مترادف‘

قوانین کے مطابق ’قومی اسمبلی کے قائد ایوان (وزیر اعظم) کے انتخاب کے بعد 30 روز کے اندر اسپیکر، قائمہ کمیٹی اور تمام فعال کمیٹیز بنانے کا پابند ہوتا ہے‘۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان 18 اگست کو وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے اور اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس 3 درجن سے زائد کمیٹیاں قائم کرنے کے لیے 17 ستمبر تک کا وقت تھا۔

ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتوں نے قانون کے تحت کمیٹیوں کے اراکین کے لیے تمام نام پہلے ہی قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے حوالے کردیے تھے لیکن اسپیکر کی جانب سے اس عمل کو اس وقت روک دیا گیا تھا جب اپوزیشن نے یہ اعلان کیا کہ اگر انہیں پی اے سی کی چیئرمین شپ نہیں دی جاتی تو وہ تمام کمیٹیوں سے دستبردار ہوجائیں گے۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ حکومت پر قوانین کے مطابق کوئی ایسی پابندی نہیں ہے کہ وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ اپوزیشن جماعتوں کو دے، لیکن گزشتہ 10 برسوں سے یہ ایک پارلیمانی پریکٹس اور روایت ہے کہ یہ دفتر اپوزیشن رکن کو دیا جاتا ہے تاکہ مالی معاملات میں شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔

خیال رہے کہ مئی 2006 میں لندن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے درمیان ہونے والے میثاق جمہورت کے معاہدے میں دونوں جماعتیں اس بات پر متفق ہوئی تھیں کہ ’ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کے چیئرمین متعلقہ اسمبلیوں میں قائد حزب اختلاف کی جانب سے مقرر کیے جائیں گے‘۔

پی اے سی کی بات کی جائے تو یہ سب سے اعلیٰ پارلیمانی کمیٹی ہے اور یہ حکومت کی آمدنی اور اخراجات کے آڈٹ کی نگرانی کرتی ہے جبکہ اسے پارلیمنٹ کی سب سے طاقت ور اور اہم کمیٹی تصور کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ نامزد

اس سارے معاملے پر جب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ ابتدائی طور پر پی ٹی آئی اس معاملے پر تقسیم تھی لیکن اب یہ فیصلہ ہوا ہے کہ پی اے سی چیئرمین شپ اپوزیشن لیڈر کو نہیں دی جائے گی، کیونکہ وہ پہلے ہی کرپشن کے الزامات میں حراست میں ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں حتمی فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت تحریک انصاف کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کیا جائے گا۔

ادھر مسلم لیگ (ن) کے ترجمان مریم اورنگزیب نے ڈان کو بتایا کہ اگر اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے شہباز شریف کو پی اے سی چیئرمین نہیں مقرر کیا گیا تو ان کی جماعت تمام کمیٹیوں سے دور رہنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اسی حوالے سے جب پیپلز پارٹی سے رابطہ کیا گیا تو رکن قومی اسمبلی نوید قمر نے کمیٹیوں کے قیام میں تاخیر پر حکومت اور اسپیکر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی مشترکہ اپوزیشن اور میثاق جمہوریت کا حصہ تھی، لہٰذا وہ یہ سمجھتی ہے کہ اس معاملے پر مسلم لیگ (ن) کا موقف ’درست اور قانونی‘ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

KHAN Oct 29, 2018 07:54pm
پارلیمانی روایت تو باریاں لینی کی تھی، عوام نے تحریک انصاف کو کرپشن کے خلاف کارروائی کے لیے ووٹ دیے نہ کہ پارلیمانی روایات نبھانے کے لیے۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی کسی صورت کرپشن میں مبینہ ملوث ارکان کو نہ دی جائے بلکہ اس میں این ایف سی کے تحت صوبائی حکومتوں کو دیے جانے والے اربوں روپے فنڈز کی الگ سے انکوائری کا شعبہ بھی قائم کیا جائے۔
KHAN Oct 30, 2018 06:18pm
پارلیمانی روایت تو باریاں لینی کی تھی، عوام نے تحریک انصاف کو کرپشن کے خلاف کارروائی کے لیے ووٹ دیے نہ کہ پارلیمانی روایات نبھانے کے لیے۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی کسی صورت کرپشن میں مبینہ ملوث ارکان کو نہ دی جائے بلکہ اس میں این ایف سی کے تحت صوبائی حکومتوں کو دیے جانے والے اربوں روپے فنڈز کی الگ سے انکوائری کا شعبہ بھی قائم کیا جائے۔