اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو نے 26 اکتوبر کو سلطنت عمان کا خفیہ دورہ کیا۔ اس دورے سے 2 دن پہلے آذربائیجان کے آرمی چیف تل ابیب میں اسرائیلی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کرچکے تھے اور اسرائیل کی وزیرِ ثقافت و کھیل اپنی جوڈو ٹیم کے ساتھ پہلی مرتبہ متحدہ عرب امارات میں موجود تھیں۔ جبکہ اسرائیلی وزیرِاعظم کے دورہ عمان سے ایک دن پہلے ایک اسرائیلی طیارے کی اسلام آباد آمد اور 10 گھنٹے قیام کے بعد واپسی کی افواہیں زور و شور کے ساتھ گردش میں تھیں۔

اسرائیلی طیارے کی اسلام آباد آمد کی خبر نما افواہ اسرائیلی اخبار کے مدیر نے سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ اسرائیلی اخبار کے مدیر ایوی شارف نے اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے فلائٹ راڈار سے طیارے کی ٹریکنگ کی اور ویب سائٹ سے نقشہ اور دیگر تفصیلات کے اسکرین شاٹ شیئر کئے۔ اسرائیلی اخبار کے مدیر نے سوشل میڈیا پر تو سنسنی پھیلائی لیکن اس خبر کو اپنے اخبار میں جگہ نہیں دی۔ پاکستان میں اس خبر پر میڈیا اور اپوزیشن نے سوال اٹھایا تو حکومت کی طرف سے کوئی سنجیدہ جواب نہ ملا۔

وزیراطلاعات فواد چوہدری نے سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کے ٹویٹ کے جواب میں طعنہ زنی کی اور کہا کہ عمران خان، نواز شریف کی طرح خفیہ مذاکرات نہیں کریں گے۔ سول ایوی ایشن نے بھی تردید کی لیکن اسرائیلی صحافی کے پیش کئے گئے شواہد کی ٹھوس تردید کی بجائے 2 سطری بیان پر اکتفا کیا گیا۔

اسرائیل کے ساتھ روابط پاکستان میں حساس ایشو ہے لیکن نیا نہیں۔ ماضی میں بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کئی بار عوامی جذبات اور سیاسی ردِعمل جاننے کے لیے حکومتی سطح پر ایسے اقدام کئے جاتے رہے ہیں۔ یہ اقدامات پانی میں پتھر پھینک کر گہرائی ماپنے جیسی کوششیں تھیں۔

اسرائیلی طیارے کی آمد کی خبر یا افواہ کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ بنجمن نیتن یاہو کے سلطنت عمان پہنچنے سے ایک دن پہلے طیارے کی مشکوک نقل و حرکت دال میں کچھ کالا ہونے کے شک کو پختہ کرتی ہے۔ اسرائیلی وزیرِاعظم کو عمان کے دورہ میں موساد چیف نے بھی جوائن کیا لیکن وہ وزیرِاعظم کے طیارے میں نہیں بلکہ الگ سے پہنچے تھے۔

اسرائیلی صحافی نے پے در پے ٹویٹس کے بعد یہ کہہ کر بحث بند کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیلی وزیرِاعظم کے دورہ عمان سے اس طیارے کا کوئی تعلق نہیں۔ اسلام آباد آنے والے طیارے میں کون تھا اسرائیلی صحافی نے وضاحت نہیں کی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان کی یہ ٹویٹس بھی ردِعمل جانچنے کی ایک کوشش تھی۔ پاکستان جیسے ملکوں میں اس طرح کی لیکس ممکن نہیں ہوتیں۔ اسرائیلیوں نے خود یہ خبر لیک کرکے پاکستان کو بھی ردعمل جانچنے کا ایک موقع دیا۔

ان تمام تر افواہوں کے باوجود یہ بات تو بہرحال بالکل واضح ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کا دورہ اسلام آباد مستقبل قریب میں بھی ممکن نہیں۔ ایسے اعلیٰ سطح کے دوروں کے لیے زمین ہموار کرنے میں وقت لگتا ہے اور عوامی جذبات اور ردعمل کو بھی ایسی کسی بڑی پیشرفت کے لیے تیار کیا جاتا ہے جیسا کہ دورہ عمان کے لیے ہوا۔

عمان کے دورے کے لیے موساد چیف ایک عرصہ سے رابطوں میں تھے اور یہ رابطے برطانوی انٹیلی جنس کے ذریعے ہوئے۔ بنجمن نیتن یاہو کے دورہ کے فوری بعد اسرائیل کے وزیرِ ٹرانسپورٹ یسرائیل کاتز کے دورہ عمان کا اعلان بھی ہوگیا جو عمان میں انٹرنیشنل ٹرانسپورٹیشن کنونشن میں شرکت کے لیے جائیں گے۔ اسرائیلی وزیر ٹرانسپورٹ ان کنونشن میں نیتن یاہو کا ٹرانسپورٹ منصوبہ ریل برائے امن پیش کریں گے۔ اس منصوبے کے تحت عرب دنیا کو اسرائیل کے ساتھ ریل لنک سے جوڑا جانا ہے۔ اس دورہ کی اہمیت صرف ٹرانسپورٹیشن کے حوالے سے نہیں بلکہ یسرائیل کاتز کے پاس انٹیلی جنس کی وزارت کا بھی قلمدان ہے۔

اسلام آباد میں ردِعمل جاننے کی کوشش کیوں ہوئی اس کے لیے مشرق وسطیٰ میں صدر ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبے اور اس پر ہونے والی پیشرفت کو جاننا ضروری ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے امن منصوبے کو ‘ڈیل آف سنچری’ کہتے ہیں جبکہ فلسطین کے صدر اس منصوبے کو ‘صدی کا سب سے بڑا طمانچہ’ کہہ چکے ہیں۔

صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ امن منصوبے کے ساتھ ایران پر پابندیوں اور اسے گھیرنے کے منصوبے پر بھی عمل پیرا ہیں۔ اگلے ماہ ایران کے ساتھ تیل کے سودوں پر پابندیاں نافذ ہونے کو ہیں۔ امریکا وسط مدتی الیکشن سے گزر رہا ہے۔ ری پبلکن پارٹی کو کانگریس میں کنٹرول چھن جانے کا ڈر ہے۔ صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ امن منصوبے کا اعلان وسط مدتی الیکشن کے بعد دسمبر یا جنوری میں کرسکتے ہیں۔

صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ امن منصوبے کو اپنی بڑی خارجہ پالیسی کامیابی کے طور پر پیش کرکے اگلی مدت کا صدارتی الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ فلسطین کی قیادت ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کو مسترد کرچکی ہے۔ صدر ٹرمپ نے نہ صرف امریکی سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا بلکہ واشنگٹن میں پی ایل او (Palestine Liberation Organization) کا نمائندہ دفتر بھی بند کردیا ہے اور فلسطینی مہاجرین کے لیے امدادی پروگرام کی فنڈنگ روکی جاچکی ہے۔ اس کے باوجود وہ امن منصوبے کی کامیابی کے لیے پُرامید ہے۔ امن منصوبے میں اب فلسطین کی قیادت کے بجائے دیگر عرب ملکوں اور اسرائیل کے تعلقات پر توجہ دی جا رہی ہے۔

اس قدر ہونے والی پیش رفت کے ساتھ ساتھ اس کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ سعودی عرب نے بھارتی ایئرلائن کو اسرائیل کے لیے پروازیں سعودی فضائی حدود سے گزارنے کی اجازت دی۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اس سال دورہ امریکا کے دوران امریکا میں مقیم یہودی لیڈروں کے ساتھ ملاقات کی۔

سعودی عرب میں اس ماہ ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس میں محمد بن سلمان نے مشرق وسطیٰ کو اس صدی کا یورپ قرار دیا اور قطر میں بھی سرمایہ کاری مواقع کی بات کی۔ قطر کی معیشت کو اہم معیشت قرار دیا۔ یہ وہی قطر ہے جس کا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے مقاطعہ کیا تھا۔ اسی طرح مصر میں اسرائیل مخالف عوامی جذبات کے باوجود اسرائیلی سفارتخانے نے نیل رٹز کارلٹن ہوٹل میں اسرائیلی ریاست کی 70ویں سالگرہ کا جشن بھی منایا۔

آذربائیجان اور عمان ایران کے ہمسایہ اور اس کے حلیف ملک ہیں، لیکن اب تل ابیب کے ساتھ ان کے روابط گرم جوشی کی طرف مائل ہیں۔عمان قطر کے مقاطعہ کے دوران سعودی عرب کے موقف کے خلاف کھڑا تھا لیکن نئے امن منصوبے میں دونوں کے موقف میں یکسانیت پائی جارہی ہے۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی اسرائیل کے رابطے تیز ہوئے ہیں۔ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے واشنگٹن میں سفیروں نے جیوش انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکورٹی افیئرز کے ڈنر میں اس ماہ شرکت کی اور ایک ہی میز پر بیٹھے۔ اسرائیلی وزیرَاعظم پہلے ہی عرب دنیا کے ساتھ تعلقات پر زور دیتے آئے ہیں اور دورہ عمان کے بعد انہوں نے بیان دیا کہ ابھی مزید عرب ملکوں کے ساتھ نمایاں پیشرفت سامنے آئے گی جو حیران کن ہوگی۔

اسرائیل کی وزیرِ کھیل متحدہ عرب امارات میں اپنی جوڈو ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے پہنچیں اور ہفتے کو ہونے والے مقابلوں میں اسرائیلی کھلاڑی اپنا جھنڈا اٹھائے شریک ہوئے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کیونکہ اس سے پہلے اسرائیلی کھلاڑیوں کو عرب ملکوں میں جوڈو فیڈریشن کے جھنڈے تلے شرکت کی اجازت تھی۔ یہی نہیں بلکہ جب اسرائیلی کھلاڑی نے کانسی کا تمغہ جیتا تو پہلی مرتبہ امارات میں اسرائیلی جھنڈا لہرایا گیا اور اسرائیل کا قومی ترانہ بجایا گیا۔ اسی ہفتے قطر میں ورلڈ آرٹسٹک جمناسٹک مقابلوں میں بھی اسرائیلی کھلاڑی اپنے جھنڈے کے ساتھ شریک ہوئے۔ عرب دنیا میں ایران کے حلیف سمجھے جانے والے عمان اور قطر کی نئی پالیسی بھی خطے میں بڑی تبدیلیوں کا اشارہ ہے۔

اسرائیلی وزیر کھیل (بائیں) امارات کے ریسٹلنگ جوڈو اور باکسنگ فیڈریشن کے صدر محمد بن تھلوب سے مل رہی ہیں
اسرائیلی وزیر کھیل (بائیں) امارات کے ریسٹلنگ جوڈو اور باکسنگ فیڈریشن کے صدر محمد بن تھلوب سے مل رہی ہیں

سعودی عرب جمال خشوگی کے قتل کے بعد دباؤ کاشکار ہے لیکن وائٹ ہاؤس کے سخت بیانات کے باوجود ریاض اور واشنگٹن تعلقات میں فرق نہیں آیا۔ امریکی سیکرٹری دفاع جیمز میٹس نے بحرین میں 3 روزہ سیکورٹی کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ جمال خشوگی کے قتل نے خطے کو عدم استحکام کے خطرے سے دوچار کیا ہے، امریکا ذمہ داروں کے خلاف اضافی اقدامات کرے گا لیکن بنیادی تعلقات میں فرق نہیں آئے گا۔ سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ واشنگٹن ریاض تعلقات ناقابلِ تسخیر ہیں۔ اسی کانفرنس میں عمان کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اسرائیل اس خطے کا ایک ملک ہے اور اس کے ساتھ باقی ملکوں جیسا برتاؤ کیا جانا چاہئے۔ عمان کے وزیرِ خارجہ کا بیان اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اشارہ ہے۔

عرب لیڈر اسرائیل کے ساتھ خفیہ روابط رکھے ہوئے ہیں۔ انٹیلی جنس تعاون بھی جاری ہے لیکن اسے عوام کے سامنے لانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں گریٹ گیم فلسطین اسرائیل نقشوں میں تبدیلی اور تہران کو سبق سکھانا ہے۔ عرب لیڈر چاہتے ہیں کہ پہلے فلسطین ایشو سمیٹ لیا جائے اس کے بعد وہ تہران سے نمٹنے میں امریکا اور اسرائیل کا ساتھ دیں ۔

پاکستان بھی ایران کا اہم ہمسایہ ہے۔ مشرق وسطیٰ کی اس گریٹ گیم سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ فلسطین کا مسئلہ عوامی اہمیت اور جذبات کا ہے۔ سعودی عرب سے دوستی اور قرض کے بدلے ایران کے ساتھ مخالفت مول لینا کسی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ سعودی عرب سے قرض لینے کے بعد یمن جنگ میں ثالثی کے بیانات اسی گیم سے جڑے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ یمن میں تو ایران ایک فریق ہے تو ثالثی کس کے ساتھ ہوگی؟ وزیرِ اطلاعات کہتے ہیں کہ یمنی لیڈر نے ٹوئیٹ کی تھی کہ وزیراعظم عمران خان کی ثالثی قبول کریں گے، لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ثالثی ٹویٹس کے ذریعے نہیں ہوتی۔

یمن جنگ پر سعودی عرب کی پوزیشن عالمی سطح پر بھی دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ سعودی عرب اس جنگ کے اخراجات سے بھی تھک گیا ہے اور یورپی ممالک یا اقوام متحدہ کے کسی سخت ردِعمل اور کارروائی سے پہلے اس جنگ سے نکلنے کے جتن کر رہا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان نے ثالثی کی پیشکش کی تو متحدہ عرب امارات کے وزیر انور قرقاش نے ٹوئیٹر پر سخت ردِعمل دیا تھا اور عرب ملکوں کے معاشی احسانات یاد دلائے تھے۔ اب عرب امارات بھی اس ثالثی پر رضامند ہے تو اس کی کوئی تو وجہ ہے۔

مشرق وسطیٰ کی گریٹ گیم میں پاکستان کا کردار اہم ہے۔ پاکستان کھل کر کوئی کردار ادا کر پائے گا یا نہیں؟ اسرائیلی طیارے کی آمد اسی سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش تھی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف اس طرح کی ایک سے زیادہ کوششیں کرچکے ہیں۔

پہلی باضابطہ کوشش ستمبر 2005ء میں مشرف کے وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری کی اسرائیلی ہم منصب سلوان شالوم کے ساتھ استنبول میں ملاقات تھی۔ یکم ستمبر کو وزرا خارجہ ملاقات کے بعد صدر مشرف نے 17 ستمبر کو امریکی جیوش کانگریس کے ڈنر میں شرکت کی۔ مشرف دور میں حکومتی پالیسی کے تحت اخبارات میں بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو زیرِ بحث لایا گیا۔ اس دور میں اسرائیلی وزیرِ خارجہ کا بیان بھی بہت نمایاں ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستانی کی نیوکلیر صلاحیت کے خلاف کوئی پلان ترتیب نہیں دیا کیونکہ اسرائیل پاکستان کو اپنا دشمن نہیں سمجھتا۔

پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ خورشید قصوری اپنے اسرائیلی ہم منصب سلوان شالوم سے ملاقات کررہے ہیں
پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ خورشید قصوری اپنے اسرائیلی ہم منصب سلوان شالوم سے ملاقات کررہے ہیں

اقتدار سے بے دخلی کے بعد بھی سابق فوجی صدر پرویز مشرف اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی وکالت میں مصروف ہیں۔ جنوری 2012ء میں مشرف نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی۔ اُس وقت مشرف کی ثالثی کی پیشکش سمجھ سے بالاتر تھی اور اسی پیشکش کے بعد اسرائیلی اخبار نے ان سے انٹرویو کیا اور اس کا پس منظر جاننے کی کوشش کی۔ مشرف کا یہ انٹرویو پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حامیوں کا موقف سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

اسرائیلی اخبار نے سوال کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا خیال کہاں سے آیا؟ مشرف اس سوال پر گڑبڑا گئے اور کہا کہ وہ آزاد سوچ کے مالک ہیں، زیادہ پڑھنے لکھنے کے شوقین نہیں اس لئے جو کچھ بھی کہتے ہیں ان کا اپنا خیال ہوتا ہے۔ سابق فوجی صدر کا یہ جواب کوئی اور کہانی ظاہر کرتا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا فائدہ کیا ہوگا؟ اس سوال پر مشرف کا جواب تھا کہ امریکا میں اسرائیلی لابی مضبوط ہے، میڈیا پر بھی اثر رکھتی ہے، لہٰذا ہمیں ان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

مشرف نے اس انٹرویو میں ثالثی کی ایک کوشش کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ 2006ء میں انہوں نے ترکی، ملائشیا اور انڈونیشیا کے دورے کئے۔ ان ملکوں کی قیادت سے کہا کہ سعودی عرب، مصر اور اردن کے ساتھ مل کر ثالثی وفد تشکیل دیا جائے۔ مشرف نے کہا کہ انہوں نے اسرائیل کو آن بورڈ نہیں لیا تھا لیکن وہ اس کوشش کے بارے میں جانتے تھے۔ مشرف نے کہا کہ اس کوشش میں انہوں نے ایران کو باہر رکھا تھا اور اس وقت کے ایرانی صدر احمدی نژاد کو خود تہران جاکر وضاحت دی تھی کہ ایران کو اس عمل سے کیوں باہر رکھا گیا ہے۔ مشرف کا کہنا تھا کہ ایران اسرائیل کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے جبکہ باقی 7 ملک فلسطینی ریاست کے بدلے موقف بدلنے کو تیار ہیں۔ احمدی نژاد اس حقیقت کو ماننے کو تیار نہیں تھے۔

مشرف کا انٹرویو اسرائیل کے حوالے سے مسلم دنیا کی قیادت کے بدلتے موقف کی ایک تصویر پیش کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے امن منصوبے کے بعد ان کوششوں میں تیزی آئی ہے۔ اسرائیل کے عرب دنیا کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور فلسطینیوں کو نظر انداز کیا جانا خطے میں خطرناک تبدیلی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے امن منصوبے کے خدوخال دنیا کے سامنے افشا نہیں کئے لیکن مشرقی بیت المقدس کو اسرائیل کے حوالے کئے جانے کی خبر عام ہے۔ اس اقدام سے مسلم دنیا میں غم و غصے کی نئی لہر تشدد کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ آگ و خون کا نیا طوفان بھی جنم دے سکتی ہے۔

تبصرے (3) بند ہیں

طارق مغل Oct 29, 2018 07:31pm
محترم ڈاکٹر آصف شاہد آپ کے تجزئیے میرے لیے باعث رہنمائی ہیں،،،، اسرائیلی طیارے کی اسلام آباد آمد اور قیام پر مختلف قیاس آرائیاں تاحال جاری ہیں،،، کوئی ہوا میں بات کر رہا ہے تو کوئی حکومت کے خلاف اپنا گرج نکال رہا ہے ،،،، لیکن یہ آپ ہی کا کمال ہے کہ اس مبہم خبر نما افواہ کو کھول کر پیش کیا ،،، میں آپ کی تصنیف سے سو فیصد متفق ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاشف حیدر Oct 29, 2018 08:06pm
اسرائیل کو کسی بھی سطح پر تسلیم کرنا، کشمیر پر اپنے حق سے دستبردار ہونے جیسا ہے۔ فلسطینیوں کا جذبہء ِ حریت، آزادی تک ختم ہونے والا نہیں۔ ہر مجدون، کی جنگ صیہونیوں کے فنا کا وعدہ ہے۔
سجاد حسین Oct 30, 2018 08:58am
ڈاکٹر صاحب پلیز اس پر بھی رہنمائی فرمائیں کہ ۔۔۔۔ مسلمان ممالک کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا ضروری کیوں ہے اگر عرب ممالک اور پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے تو اس کے مادی نقصانات کیا ہوں گے ۔۔۔۔ اگر تسلیم کرلیں گے تو اس کا فلسطین کو کیا نقصان یا فائدہ ہو سکتا ہے ۔۔۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے اثرات آپ کی نظر میں کیا ہیں