پشاور ہائی کورٹ نے مشعال خان قتل کیس کے 25 ملزمان کی ضمانت پر رہائی کے خلاف درخواستیں خارج کردیں۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے درخواست کی سماعت کی۔

عدالت نے مشعال قتل کیس کے 25 ملزمان کی ضمانت پر رہائی کے خلاف مشعال کے والد اور حکومت کی جانب سے دائر درخواست پر مختصر فیصلہ سنایا۔

واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ نے مشعال قتل کیس کے 3 سے 5 سال کی سزا پانے والے ملزمان کی سزا معطل کر کے رہا کیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ نے ایبٹ آباد بینچ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

مشعال خان قتل کیس — کب کیا ہوا؟

یاد رہے کہ 23 سالہ مشعال خان کو 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر ہجوم نے تشدد کانشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ نے مشعال خان کے والد کی جانب سے درخواست پر مقدمے کو مردان سے اے ٹی سی ایبٹ آباد منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اے ٹی سی نے مقدمے کی سماعت کا آغاز ستمبر میں کیا تھا جبکہ یونیورسٹی کے طلبا اور اسٹاف کے اراکین سمیت گرفتار 57 مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی اور گرفتار ملزمان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کی گئی تھی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے 50 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور وکلا کی جانب سے ویڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیا جس میں گرفتار ملزمان کو مشعال خان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔

یاد رہے کہ مشعال خان قتل کیس کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔

اے ٹی سی نے پانچ ماہ اور 10 دن کی سماعت کے بعد مقدمے کی کارروائی مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

خیال رہے کہ 7 فروری کو ایبٹ آباد کی اے ٹی سی نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید اور 25 مجرموں کو 3 سال قید جبکہ 26 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

مشعال خان کے اہلخانہ نے اے ٹی سی کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور 13 فروری کو مشعال خان کے بھائی ایمل خان نے اپنی وکلا ٹیم سے مشاورت کے بعد کہا تھا کہ وہ ایبٹ آباد کی اے ٹی سی کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

مشعال خان کے بھائی ایمل خان نے 14 فروری کو مشعال خان قتل کیس میں اے ٹی سی ہری پور کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

یاد رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے مشعال خان قتل کیس میں ایبٹ آباد کی اے ٹی سی سے 26 افراد کی بریت کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

مشعال خان کے والد نے بھی 24 فروری کو اپنے بیٹے کے قتل کیس میں اے ٹی سی کے فیصلے کے خلاف 6 اپیلیں پشاور ہائی کورٹ میں دائر کردیں تھیں۔

دوسری جانب سزا پانے والے مجرمان نے پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ میں مشعال قتل کیس سے متعلق ہری پور کی اے ٹی سی کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ کے بینچ نے 27 فروری کو 25 ملزمان کی سزاؤں کو معطل کرکے ملزمان کو رہا کرنے کے احکامات جاری کردیئے تھے۔

یاد رہے کہ مشعال خان قتل کیس کے مرکزی ملزم کو 8 مارچ کو پولیس نے مردان کے علاقے چمتار سےگرفتار کیا تھا۔

واضح رہے کہ رہے کہ اس کیس میں نامزد 61 ملزمان میں سے 60 کو گر فتار کیا چکا ہے جن میں ایک ہفتہ قبل پی ٹی آئی کے سابق تحصیل کونسلر عارف مردانوی بھی شامل ہے جسے بیرون ملک سے آتے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا، جبکہ کیس کے ایک اور مرکزی ملزم صابر مایار نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

مشعال کیس میں آخری ملزم اور یو نیورسٹی کا ملازم اسد کاٹلنگ گرفتار نہیں ہوسکا اور اس کی گر فتاری کے لیے پولیس کوششیں کر رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں