لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں

وفاق میں چند حلقوں کی جانب سے 18ویں آئینی ترمیم ختم کرنے کی خواہش کا زور و شور سے پرچار کیا جا رہا ہے مگر ابھی بھی واضح نہیں ہے کہ شور درحقیقت ہے کس بارے میں۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں تقریباً 100 ترامیم کی گئیں اور یہ واضح ہے کہ تمام پریشان کن بھی نہیں ہیں۔

ترمیم نے آئین میں کئی بنیادی حقوق کا اضافہ کیا: شق 10 (اے) کے تحت شفاف ٹرائل کا حق، 19 (اے) کے تحت معلومات تک رسائی کا حق، اور 25 (اے) کے ذریعے تعلیم کا حق دیا گیا۔ ان پر تو کوئی جھگڑا نہیں۔

کچھ ترامیم ججز کی تقرری کے بارے میں ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ عدالتی تقرریوں اور عدالتی احتساب کے طریقہ کار میں مزید تبدیلی کی ضرورت ہے مگر 18ویں ترمیم کے خلاف اٹھنے والا شور اس بارے میں نہیں ہے۔

گورننس کے ڈھانچوں میں بنیادی یا طریقہ کار کے حوالے سے ہونے والی زیادہ تر تبدیلیوں پر بھی بات نہیں ہو رہی۔ 18ویں ترمیم کی مخالفت وفاقی سطح کے کھلاڑیوں کی طرف سے آتی محسوس ہوتی ہے۔ پھر یہ مفروضہ کہ وفاق جو کام کرنا چاہتا ہے اس کام کو انجام دینے میں 18ویں ترمیم وفاقیت کی صلاحیت پر اثرانداز ہو رہی ہے۔

2 جگہیں ایسی ہیں جہاں مسئلہ محسوس ہوتا ہے۔ ایک تو اختیارات کی صوبوں کو منتقلی ہے اور دوسرا مسئلہ اس سے متعلقہ مگر علیحدہ ہے اور وہ ہے وفاق اور صوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم، یعنی نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کے فارمولے کا عمودی حصہ۔

این ایف سی فارمولے کے عمودی حصے کے متعلق کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وفاق نے اپنا حصہ بہت کم کرلیا ہے۔ کچھ کا تو یہ بھی کہنا ہے وفاق کے سامنے موجود حالیہ مالیاتی خسارے کی ایک بڑی وجہ این ایف سی کا یہ عمودی بندوبست ہے۔ چونکہ وفاق خود بہت کم رکھتا ہے جبکہ اس کے اخراجات کی ضروریات اور اس کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں، اس لیے اس کا خسارے میں جانا لازمی ہے۔ اگر این ایف سی کی بنیاد پر دوبارہ غور کیا جاسکے تو خسارے کے اس مسئلے کو حل کرنا آسان ہوگا۔

وسائل کی تقسیم اختیارات کی منتقلی سے بھی منسلک ہے۔ عدم مرکزیت اور اختیارات کی نیچے تک منتقلی کے تصور کو زیادہ تر لوگ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ جو خدمات مقامی طور پر فراہم کی جاسکتی ہیں ان کے لیے فیصلے وفاقی یا صوبائی سطح پر فیصلے کیوں لیے جائیں؟ مرکزیت نہ صرف غیر جمہوری بھی ہے بلکہ یہ غیر مؤثر ہے اور اس سے کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر یہ خدمات کی فراہمی کے لیے بہت اہم ہے۔

اسکول یا مقامی صحت مرکز کہاں ہونا چاہیے، اسے کون اور کیسے چلائے گا اور اسے کیسے مانیٹر کیا جائے گا، یہ مقامی مسائل ہیں اور ان کا حل بااختیار مقامی حکومتوں اور برادریوں کو کرنا چاہیے۔ کچھ چیزوں میں رابطہ کاری کی ضرورت پڑسکتی ہے: ہوسکتا ہے کہ مرکزیت سے ان کی کارکردگی بہتر ہو (نصاب، امتحانی نظام، کتابوں کی چھپائی، سامان کی خریداری) مگر زیادہ تر انتظامی اور گورننس سے متعلق فیصلہ سازی کا مقامی سطح پر ہونا قابلِ فہم ہے۔

پاکستان کے زیادہ تر لوگ عدم مرکزیت اور اختیارات کی منتقلی کے بنیادی اصول سے متفق ہوتے ہیں۔ تفصیلات، مثلاً نصاب وغیرہ کے بارے میں کچھ بحث ہوسکتی ہے مگر اسے رابطہ کاری کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے اور یہ مرکزیت کے حق میں دلائل نہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہیں۔

چنانچہ اگر عدم مرکزیت معقول ہے اور کم از کم خدمات کی فراہمی کے لیے تو یہ معقول ہی ہے، تو پھر یہ 18ویں ترمیم کا متنازع مسئلہ کیوں ہے؟ وجہ ایک بار پھر مالیاتی ہے۔ خدمات کی فراہمی مہنگی ہے۔ اگر صوبوں کو مقامی سطح پر خدمات، خصوصاً صحت، تعلیم، پانی، نکاسی آب و صفائی اور سماجی بہبود آئین میں کیے گئے وعدوں کے مطابق فراہم کرنی ہیں یا پھر ان معاہدوں کے مطابق جن پر ہم نے دستخط کیے ہیں (پائیدار ترقی کے اہداف یا ایس ڈی جی) تو پھر انہیں وسائل چاہیے ہوں گے۔ محصولات اکھٹے کرنے کے ہمارے نظام کو دیکھتے ہوئے اس کام کے لیے وفاق سے صوبوں کی جانب اہم منتقلیوں کی ضرورت ہوگی۔

یہ سچ ہے کہ کم سے کم معیارِ تعلیم اور نصاب کے کچھ حصوں پر اتفاقِ رائے کے لیے باتیں ہوئی ہیں مگر یہ مسائل مرکزیت کا جواز نہیں فراہم کرسکتے۔ یہ رابطہ کاری اور مذاکرات کے لیے وجوہات فراہم کرسکتے ہیں مگر مرکزیت کے لیے نہیں۔ کیونکہ آخر مذاکرات کے ذریعے اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے برعکس کسی غیر متفقہ چیز کا نفاذ کیسے زیادہ بہتر ہوسکتا ہے؟

بالآخر یہی محسوس ہوتا ہے کہ سارا مسئلہ پیسے کا ہے اور مسئلہ این ایف سی یا 18ویں ترمیم نہیں ہے۔ مسئلہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارا ٹیکس نظام خراب انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے اور خراب کارکردگی کا حامل ہے۔ تمام بڑے ٹیکس وفاق کے پاس ہیں، ٹیکس کا دائرہ کار بہت چھوٹا ہے اور عملدرآمد بہت ہی کم ہے۔ اس کے علاوہ ایڈ ہاک اور ایڈوانس کٹوتیوں پر بہت زیادہ انحصار کیا جاتا ہے اور صوبوں کے پاس اپنے سورس ٹیکس نہیں ہیں یا وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

چنانچہ صوبوں کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے 18ویں ترمیم کے تحت این ایف سی سے ملنے والی رقم پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور وفاق کو لگتا ہے کہ اس کے پاس بہت کم پیسے رہ گئے ہیں۔ لیکن اگر ہم 18ویں ترمیم یا پھر ترمیم میں اختیارات کی منتقلی اور این ایف سی سے متعلق شقوں کو ختم بھی کردیں تو اس سے مالیاتی مسائل کیسے حل ہوں گے؟ ہمیں تب بھی صحت، تعلیم اور دیگر خدمات پر اگر زیادہ نہیں تو اتنا ہی خرچ کرنا پڑے گا۔ یہ وفاق ہوگا جسے یہ اخراجات کرنے ہوں گے؛ اس سے خسارے کم کرنے یا پھر وفاق کو زیادہ مالیاتی آزادی دینے کا مقصد کیسے حاصل ہوگا؟

18ویں ترمیم اور آخری این ایف سی معاہدے میں اس حوالے سے کچھ مفروضے تھے کہ وفاقی سطح پر محصولات اکھٹا کرنے کا نظام کس طرح ارتقاء پائے گا۔ اس میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی ایک مخصوص شرحِ اضافہ، ٹیکس کی وصولی اور ٹیکس و جی ڈی پی کے تناسب میں بہتری کو فرض کیا گیا تھا۔ مگر یہ سب ہوا نہیں۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ وفاق کو اضافی دباؤ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

موجودہ محصولات کو وفاق اور صوبوں کے درمیان مختلف انداز میں بانٹنے سے ملک کو لاحق مالیاتی مسائل کا حل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ایسا ہے کہ وفاق کے پاس اگر صحت اور تعلیم وغیرہ پر خرچ کرنے کا اختیار ہوتا تو یہ خدمات کی فراہمی پر اخراجات میں کمی کرسکتا تھا۔ نہ ہی خدمات کی ذمہ داری تبدیل کرنے سے کچھ تبدیل ہوگا۔ چنانچہ مسئلہ 18ویں ترمیم نہیں ہے۔ مسئلہ خراب طور پر ڈیزائن کیا گیا اور خراب کارکردگی کا حامل ٹیکس نظام ہے۔ اس لیے توجہ کا مرکز ٹیکس اصلاحات ہونی چاہیئں نہ کہ 18ویں ترمیم۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 2 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں