پشاور: بے نامی اکاؤنٹس سے متعلق منی لانڈرنگ کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 30 بے نامی اکاؤنٹس کا پتہ چلا لیا ہے، جس سے تقریباً 10 ارب روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی۔

ایف آئی اے خیبرپختونخوا کے ڈپٹی ڈائریکٹر طارق پرویز کے مطابق یہ بے نامی اکاؤنٹس 12 سے 15 ہزار ماہانہ پر کام کرنے والے 8 گھریلو ملازمین کے نام پر ہیں۔

طارق پرویز کے مطابق ان بے نامی اکاؤنٹس کی تعداد 30 ہے اور اس سے تقریباً10 ارب روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس منطقی انجام تک پہنچائیں گے، چیف جسٹس

انہوں نے بتایا کہ یہ اکاؤنٹس منی لانڈرنگ میں استعمال ہورہے تھے اور انہیں اکاؤنٹس کے ذریعے صوبے کے بیشتر اظلاع میں ٹرانزیکشن کی گئیں۔

طارق پرویز کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقوں سوات، کالام، بونیر اور بشام کے بینکوں میں بھی بے نامی اکاؤنٹس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بے نامی اکاؤنٹس میں ملوث افراد کے شناختی کارڈ مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک بھیجے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ جعلی اکاؤنٹس کا معاملہ اس وقت زیادہ توجہ کا باعث بنا تھا جب 6 جولائی کو ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست لیا گیا تھا۔

حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔

ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی تھا، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر تھا کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔

یہ بھی پڑھیں: فالودہ، سبزی فروش کے بعد ارب پتی رکشہ ڈرائیور کا انکشاف

بعد ازاں اس معاملے پر سپریم کورٹ کی جانب سے ایکشن لیا گیا تھا اور عدالت عظمیٰ نے تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

تاہم ایف آئی اے کی جانب سے جہاں ایک طرف اس معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہیں وہیں ملک بھر میں فالودہ فروش، رکشہ ڈرائیور اور دیگر افراد کے اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشن سامنے آرہی ہیں۔

حال ہی میں کراچی کے ایک رکشہ ڈرائیور کے نام پر کھولے گئے اکاؤنٹ سے ساڑھے 8 ارب روپے کی ٹرانزیکشن کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں