اسلام آباد: 3.6 کھرب روپے مالیت کی سرکاری قومی بچت اسکیم میں بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کا انکشاف ہوا ہے جس میں ادارے کے اہلکار 70 لاکھ سے زائد بچت کنندگان کا اعتماد مجروح کرتے ہوئے مبینہ طور پر 20 کروڑ روپے کی بد عنوانی کے مرتکب ہوئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس دھوکہ دہی کا انکشاف لاہور میں کچھ افراد کے 10 سالہ سرٹیفکیٹ کی میچیورٹی پر ہوا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ادارے کے ملازمین نے 10 کروڑ 10 لاکھ سے زائد رقم اپنے ذاتی اور اہلِ خانہ کے اکاؤنٹس میں منقل کی جبکہ مزید 10 کروڑ روپے نکالنے کا سلسلہ جاری تھا۔

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سینٹرل ڈائریکٹوریٹ قومی بچت کے ڈائریکٹر برائے انسانی وسائل ندیم اقبال کا کہنا تھا کہ یہ ادارے میں اب تک کا سب سے بڑا فراڈ ہوسکتا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 15 سے 16 سال کے عرصے میں دھوکہ دہی کے محض 3 واقعات رونما ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 10ارب روپے کے فراڈ میں ملوث 39 افراد کے خلاف نیب کا ریفرنس

دوسری جانب سی ڈی این ایس کے ڈائریکٹر جنرل ارشد محمود نے اس بات کی تصدیق کی کہ قومی بچت ادارے کے ایک عہدیدار سمیت کچھ اہلکاروں پر مشتمل گروہ بہت منظم طریقے سے فراڈ کے ذریعے اکاؤنٹس میں رقم منتقل کرنے میں ملوث تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کے زیادہ تر منتقل کیے گئے فنڈز واپس نکلوالیے گئے ہیں اور یہ معاملہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سپرد کیا جاچکا ہے جبکہ مزید کسی فراڈ سے بچنے کے لیے تمام تر ریکارڈ کے خصوصی آڈٹ کا حکم دے دیا گیا۔

اس کے ساتھ ہی نظام کو بہتر بنانے اور اس کی خود کاری میں اضافہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں تاکہ مستقبل میں اس قسم کے کسی واقعے کو دوبارہ رونما ہونے سے روکا جاسکے، قومی بچت کا ادارہ جرم اور بدعنوانی سے پاک ہونا چاہیے کیوں کہ یہاں عموماً غریب اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی سادگی کی وجہ سے دھوکے کا شکار ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: اے ٹی ایم فراڈ سے بچنے کے 6 طریقے

ادارے میں موجود ایک ذرائع نے بتایا کہ ابتدا میں یہ بات سامنے آئی کہ 12 اسپیشل اور ریگولر انکم سرٹیفکیٹ کے 12 سو ایس سی-1 فارمز (جو بچت سرٹیفکیٹ کی خریداری کے لیے استعمال ہوتے ہیں) غائب ہیں، جس کے بعد چیک کیا گیا تو کمپیوٹرائزڈ معاملات میں مزید کچھ بے قاعدگیاں سامنے آئیں۔

بعدازاں خالی سرٹیفکیٹ (این ایس-8) کو مینوئل طریقے سے چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کہ کمپییوٹرائزڈ ڈیٹا مینوئل ریکارڈ سے مختلف ہے۔

مثال کے طور پر این ایس-8 کے مینوئل ریکارڈ میں 10 لاکھ روپے مالیت کے ریگولر انکم سرٹیفکیٹ کے لیے اس کی کھپت 71 ظاہر کی گئی تھی جبکہ کمپیوٹرائزڈ نظام میں اس کی تعداد 74 دکھائی گئی تھی۔

اس فرق کا باریک بینی سے جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آئی کہ اسی نوعیت کے 3 فارمز مختلف رجسٹریشن نمبروں کے ساتھ جاری کیے گئے جس کے ڈیٹا ریکارڈ میں گڑ بڑ کر کے انہیں ’اِن کیشڈ‘ ظاہر کیا گیا جبکہ کاغذی دستاویزات میں ایسا کچھ درج نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 21 کروڑ روپے سے زائد فراڈ کے الزام میں ایس ایس پی لیہ گرفتار

اس حوالے سے حکام کا کہنا تھا کہ فراڈ کرنے والے گروہ نے ایف آئی اے کی تحقیقات کے دوران 10 کروڑ 40 لاکھ روپے کی خرد برد کا اعتراف کیا جس میں 9 کروڑ 43 لاکھ روپے برآمد کروالیے گئے ہیں۔

حکام کا کہنا تھا کہ مزکورہ فراڈ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے جبکہ اس قسم کی کسی دھوکہ دہی کے حوالے سے ملک بھر میں موجود تمام برانچوں کو متنبہ کیا جاچکا ہے اور انہیں اپنا ریکارڈ درست رکھنے کی ہدایت کردی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی کوتاہی کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں