سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلق فنکشنل کمیٹی نے ملک میں لاپتہ افرادکے معاملے کو انتہائی حساس قرار دیتے ہوئے چاروں صوبوں سے حراستی مراکز کی تفصیلات طلب کرلیں۔

سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلق فنکشنل کمیٹی کا اجلاس سینیٹر مصطفی کھوکھر کی صدارت میں ہوا، جس میں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور حکام وزارت داخلہ نے شرکت کی۔

اجلاس کے ایجنڈے میں لاپتہ افراد کا معاملہ اور این جی اوز پر پابندی کا معاملہ شامل تھا۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کے کمیشن نے 3 ہزار 3 سو 31 درخواستیں خارج کردیں

اجلاس کے دوران کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ ملک میں لاپتہ افراد کا معاملہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے، انہوں نے کہا کہ جسٹس جاوید اقبال کمیٹی کو بریفنگ دے چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس جاوید اقبال نے لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹس کا جائزہ لینے کی تجویز دی، انہوں نے بتایا کہ وزارت داخلہ سے جسٹس کمال منصور اور جسٹس نور محمد کی رپورٹس مانگی تھیں۔

کمیٹی نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے تاحال وہ رپورٹس فراہم نہیں کیں اور ساتھ ہی سوال اٹھایا کہ وزارت داخلہ بتائے کہ رپورٹس تاحال کیوں فراہم نہیں کی گئیں؟

یہ بھی پڑھیں: ہمیں بھی لاپتہ افراد اور ان کے گھر والوں کا احساس ہے، چیف جسٹس

اس موقع پر موجود وزارت داخلہ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ کمیشن سے رپورٹس مانگی ہیں اور تاحال وہ رپورٹس ٹریس نہیں ہو سکیں۔

حراستی مراکز کی تفصیلات طلب

علاوہ ازیں سینیٹ کمیٹی نے چاروں صوبوں سے حراستی مراکز کی تفصیلات طلب کرلیں۔

کمیٹی کا کہنا تھا کہ صوبہ خیبرپختونخوا کی جانب سے حراستی مراکز کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں، جس پر سینیٹ کمیٹی نے مذکورہ حراستی مراکز کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کیس: ‘اسٹیبلشمنٹ نے ملک دولخت ہونے پر بھی سبق نہیں سیکھا’

کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ کمیٹی حراستی مراکز کا دورہ کرے گی اور وہاں قید تمام قیدیوں سے ملے گی جبکہ دیکھا جائے گا کہ قیدیوں کو کس حال میں رکھا گیا ہے۔

غیر ملکی این جی اوز ہم جنس پرستی کو پروموٹ کررہی تھیں

بعد ازاں سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلق فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں وزارت داخلہ نے این جی اوز پر پابندی کے معاملے پر بریفنگ دی۔

اس موقع پر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ این جی اوز پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی، بعض این جی اوز نے رجسٹریشن کے عمل کو مکمل نہیں کیا تھا اور رجسٹریشن کا عمل مکمل نہ کرنے کے باعث این جی اوز کو کام سے روک دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’لاپتہ افراد‘ کے اہل خانہ کی غمزدہ کردینے والی کہانیاں

وزارت داخلہ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ این جی اوز اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کر رہی تھیں، اس صورتحال کے بعد این جی اوز کے لیے ایک پالیسی بنائی گئی جبکہ غیر ملکی این جی اوز پر پابندی کا تاثر درست نہیں۔

وزارت کے حکام نے بتایا کہ اس وقت ملک میں 74 غیر ملکی این جی اوز کام کر رہی ہیں جبکہ 27 کی درخواستیں مسترد کی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پالیسی کے مطابق کوئی بھی غیر ملکی این جی او کام کرنے کے لیے درخواست دے سکتی ہے جبکہ این جی اوز کو سالانہ پالیسی اور آڈٹ رپورٹ جمع کرانے کے لیے پابند کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کے حکام کا کہنا تھا کہ 18 غیر ملکی این جی اوز نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی اور 2 نے عدالت سے رجوع کیا۔

مزید پڑھیں: 'پارلیمنٹ میں آج تک لاپتا افراد سے متعلق کوئی قانون سازی نہیں ہوئی'

انہوں نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ بعض این جی اوز عملی طور پر کوئی کام نہیں کر رہی تھیں، جس پر شیریں مزاری نے کہا کہ بعض این جی اوز حساس علاقوں میں جاکر میپنگ کرتی ہیں اور ایسے علاقوں کی میپنگ کی جاتی ہے جن علاقوں کی میپنگ نہیں ہونی چاہیے۔

انسانی حقوق کی وزیر کا کہنا تھا کہ حساس چیزوں کی میپنگ کی جاتی ہے، اس سے متعلق ان کیمرا اجلاس میں مزید تفصیلات بتائی جاسکتی ہیں۔

وزارت داخلہ کے حکام نے بتایا کہ بعض غیر ملکی این جی اوز ہم جنس پرستی کو پروموٹ کر رہی تھیں اور ان کی رائے تھی کہ ہم جنس پرست شادیاں کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بین الاقوامی این جی اوز پر پابندی کا معاملہ، حکومت سے وضاحت طلب

حکام نے بتایا کہ بعض این جی اوز لیسبین اور ہم جنس پرست شادیوں پر سیمینار منعقد کرانا چاہ رہی تھیں اور اس قسم کے اقدامات سے متعلق ریکارڈ بھی موجود ہے۔

اجلاس کے دوران این جی اوز سے متعلق سفارت کاروں کے مشترکہ خط کا معاملہ بھی زیر غور آیا جس کے بارے میں شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ سفارت کاروں نے مشترکہ خط لکھ کر اختیارات سے تجاوز کیا۔

انہوں نےکہا کہ کسی پر اس طرح دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا۔

بعد ازاں سینیٹ کمیٹی نے این جی اوز پر پابندی سے متعلق پالیسی مسترد کردی اور کہا کہ این جی اوز سے متعلق پالیسی میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔

مزید پڑھیں: غیر ملکی سفیروں کا این جی اوز کی رجسٹریشن میں نرمی کرنے کا مطالبہ

کمیٹی کا کہنا تھا کہ این جی اوز سے متعلق پالیسی کی کابینہ سے منظوری بھی نہیں لی گئی جبکہ وزارت داخلہ نے وزارت انسانی حقوق سے بھی کوئی مشاورت نہیں کی۔

کمیٹی نے سفارشات پیش کیں کہ وزارت داخلہ تمام وزارتوں کو اعتماد میں لے کر پالیسی بنائے اور نئی پالیسی بنا کر کابینہ سے منظوری لی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں