تیل کی صنعت بڑھتی ہوئی مانگ اور روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر ملکی کرنسی کے اثرات کو تیل کی مصنوعات کی قیمتوں پر منتقل کرنے کی خواہشمند ہے۔

یہ نئی پیٹرولیم پالیسی 2018 کا حصہ ہے، گزشتہ اجلاس میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی تیل کی مصنوعات پر ڈیوٹی ختم کرنے کی ہدایت کے باوجود صنعت نے 7.5 فیصد اور چند مواقع پر 9 فیصد تک ڈیوٹی ادا کرنے پر آواز اٹھائی تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ تیار تیل در آمد کرنے کی وجہ سے آئل کمپنیوں پر دباؤ بڑھا ہے اور اس لیے وزارت توانائی اور خزانہ کو تیل کی مصنوعات کی قیمتیں طے کرنے میں اس معاملے کو بھی مدنظر رکھنا اور اس پر کام کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ’دنیا میں سب سے سستا ایل این جی پلانٹ پاکستان میں ہے‘

اجلاس کی صدارت کرنے والے سیکریٹری انچارج پیٹرولیم ڈویژن اسد حیا الدین نے خبردار کیا کہ ہائی سلفر فرنس آئل (ایچ ایس ایف او) کے استعمال پر واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے سپلائی چین پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایچ ایس ایف او کا استعمال نہ کرنے کی وجہ سے گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں بحران سامنے آیا تھا جس کی وجہ سے تقریباً تمام مقامی ریفائنریز جو 30 لاکھ ٹن ایچ ایس ایف او پیدا کرتی تھیں، بند ہوگئی تھیں۔

واضح رہے کہ ایچ ایس ایف او در آمد نہ کرنے پر واضح پالیسی موجود ہے تاہم حالیہ پیش رفت بتاتی ہے کہ پاک عرب ریفائنری کے ٹینکوں میں صرف 2 دن کا ذخیرہ ہے جو سپلائی میں مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایل این جی کے ’غیر شفاف‘ ٹھیکوں پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ

دوسری جانب حکومت کی جانب سے گیس کی کمی اور مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کو 1.2 ارب کیوبک فیٹ فی دن کی صلاحیت والے 2 در آمداتی ٹرمینلز ہونے کے باوجود بھی اس کی درآمدات کو بجلی کے شعبوں کے لیے استعمال میں نہیں لایا گیا ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ ’ہمیں نومبر سے جنوری کے دورانیے میں بجلی اور تیل کی صنعتوں میں ایچ ایس ایف او اور ایل این جی کی مانگ اور ضرورت پر رابطے بڑھاتے ہوئے مستقبل کے لیے بھی تیاری کرنی چاہیے‘۔

آئل کمپنیاں بشمول پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے واضح کردیا ہے کہ سردی کے موسم میں وہ فوری نوٹس پر ایچ ایس ایف او در آمد نہیں کرسکیں گے۔

اجلاس میں تیل کی مصنوعات کی ایران سے اسمگلنگ میں اضافے پر بھی بات کی گئی اور شرکاء کا ماننا ہے امریکا کی تہران پر لگائی گئی پابندیوں کے باعث اس میں مزید اضافہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے پالیسی کو ابتدائی دنوں میں ہی مرتب کرلینا چاہیے کیونکہ تیل کی مصنوعات کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 6 نومبر 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں