اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما اور سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ ریاست ججز کا تحفظ کرے، ججز چاہے غلط فیصلہ کریں یا صحیح انہیں حوصلہ دیا جائے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدرات سینیٹ کا اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن نے موجودہ صورتحال پر بحث کا مطالبہ کیا۔

اجلاس کے آغاز پر وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے انسداد الیکٹرانک کرائمز بل میں ترامیم کو واپس لینے کی تحریک دی، جسے ایوان نے منظور کرلیا۔

وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ انسداد الیکٹرانک کرائمز بل گزشتہ حکومت کی کابینہ نے منظور کیا تھا اور یہ بل سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے لکھوایا تھا، لہٰذا تقاضا ہے کہ نئی حکومت اس بل کا دوبارہ جائزے لے۔

مزید پڑھیں: پُرتشدد احتجاج اور مظاہرے، ٹی ایل پی کے کارکنوں کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ

بل کی واپسی کے بعد ایوان میں بحث شروع ہوئی تو پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کی بقا، ریاست اور آئین کی ساکھ مجروح ہو۔

انہوں نے کہا کہ پورا ملک تین دن تک معطل رہا، بات کریں گے تو کہیں گے یہ تو پہلے بھی ہوچکا ہے، اس طرح کے معاہدے پہلے بھی ہو چکے ہیں لیکن اس مرتبہ ہونے والا عمل بہت بڑا سانحہ ہے۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم یہاں حکومتی بینچز کو للکارنے نہیں آئے لیکن 3 دن تک جو سڑکوں پر للکارا گیا اس پر شدید افسوس ہے، ملک کے سپہ سالار کو نام لے کر پکارا گیا، عدلیہ، ریاست اور فوج کو گھسیٹا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس قسم کے ایکشن سے کیا پیغام دیا جارہا ہے کہ حکومت بات کرتی ہے اور آگے چل پڑتی ہے، پہلی مرتبہ وضاحت کے ساتھ للکار سنی ہے، ایسی للکار کو استثنیٰ دیا جاتا ہے؟

سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ اس معاملے پر سیاست نہیں کرتے، پیپلز پارٹی نے ہر مشکل وقت میں حب الوطنی کی لکیر کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست سب کو تحفظ فراہم کرے، ججز کا تحفظ کرے، ججز چاہے غلط فیصلہ کریں یا صحیح انہیں حوصلہ دے جبکہ ریاست کے آئین اور قانون سے جو باغی ہے ان کی خبر لی جائے۔

اجلاس کے دوران سینیٹر شیریٰ رحمٰن کا کہنا تھا کہ پاکستان پر کڑے امتحان کا وقت ہے، پارلیمان کو بائی پاس کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کے معاملے پر پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا جبکہ یمن اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہا گیا، بتایا جائے کہ کن شرائط پر ثالثی کا کردار ادا کیا جائے گا۔

اجلاس کے دوران سینیٹر رضا ربانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے پر ملک 3 روز تک بند رہا، آئین کے اداروں کے بارے میں باتیں کی گئیں، ضروری ہے کہ پارلیمان اس نوعیت کے مسئلے پر بات کرے۔

اس دوران انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے اجلاس میں اس مسئلے پر بحث ہونی چاہیے لیکن چیئرمین سینیٹ نے رضا ربانی کا مطالبہ نظر انداز کردیا۔

جس پر سینیٹر رضا ربانی نے احتجاج کیا اور کہا کہ آئین سے بغاوت کا معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں آئے گا تو کہا اس پر بحث ہوگی، ہم پر لازم ہے کہ آئین کا دفاع کریں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

خیال رہے کہ 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالتی فیصلے کے خلاف ملک کی مذہبی جماعتیں خاص طور پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے ملک بھر میں مظاہرے اور دھرنے دیے تھے اور 3 دن تک ملک میں نظام زندگی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔

بعد ازاں حکومت اور مظاہرین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس میں یہ نکات شامل تھا کہ آسیہ بی بی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں بھی ڈالا جائے گا۔

جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) کے رہنما عبدالغفور حیدری نے اپنے خطاب میں عدلیہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کے عدالتی فیصلے کو عدالتی قتل کہا گیا، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو گھر بھیجا گیا تو کہا گیا انصاف کا قتل ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا توہین رسالت کا فیصلہ انصاف کا قتل ہے، سپریم کورٹ کو بتانا چاہیے کہ کیس کو کیوں اتنا لٹکایا گیا۔

پروفیسر غفور حیدری کا کہنا تھا کہ اگر وزیر بات کریں تو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس ایک طرف کہتے ہیں میں عاشق رسول صلی اللہ و علیہ وسلم ہوں اور دوسری طرف توہین کرنے والے کو رہا کیا جاتا ہے۔

رہنما جے یو آئی (ف) نے کہا کہ مولانا سمیع الحق ایک عظیم شخصیت تھے، ان کی شہادت کو چار دن گذر گئے ہیں، ہم پرامن لوگ ہیں پر امن احتجاج کرتے ہیں حالانکہ بینظیر بھٹو کی شہادت پر جو ملک میں ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔

بعد ازاں چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے رولنگ دیتے ہوئے ججز اور عدالتی فیصلوں پر ممبران کے ذاتی بیانات کو کارروائی سے حذف کر دیا ۔

چئیرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ ججز کے کنڈکٹ پر بحث نہیں ہو سکتی، عدالتی فیصلوں کے حوالے سے مناسب بیان دیے جا سکتے ہیں، سینیٹ میں ججز اور عدالتی فیصلوں پر زاتی بیانات حذف کیے جاتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں