چین نے سنگیانگ صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق اقوام متحدہ کا دعویٰ مسترد کردیا۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل نے تنقید کی تھی کہ چین میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی مایوس کن ہے جہاں ریاست کو ہی سماجی کارکنوں سمیت وکلاء کے لیے حراستی کیمپ بنا دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: چین: ‘یوغور اقلیت کو حراستی کیمپوں میں قید رکھنا خوفناک ہے‘

برطانوی اخبار دی گارجین میں شائع رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے کہا تھا کہ صوبے سنگیانگ اورتبت میں انسانی حقوق کے رضاکاروں کی گرفتاری پر تشویش ہے۔

اقوام متحدہ نے بیجنگ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ زیر حراست اویغوربرادری سمیت دیگر مسلمان اقلیتوں کو رہا کرے، تبت میں مذہبی آزادی کا تحفظ یقینی بنائے اور انسانی حقوق کے وکلاء کو ہراساں کرنا بند کرے۔

دوسری جانب چین نے اقوام متحدہ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے ردعمل دیا کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک جان بوجھ کر ’چین کی غیرمعمولی ترقی‘ کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔

مزید پڑھیں: چین: مسلم علاقے میں سیکیورٹی کے نام پر ’ڈی این اے‘ منصوبہ

چین کے نائب وزیر خارجہ لی یوچنگ نے کہا کہ ’بعض ممالک کی جانب سے لگائے گئے سیاسی الزامات کو تسلیم نہیں کریں گے جو محض حقائق کے قطعی منافی ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ چین کو کوئی دوسرا ملک جمہوریت اور انسانی حقوق پر تشریح نہیں دے سکتا۔

خیال رہے کہ بعض رضاکاروں کے مطابق تقریباً 10 لاکھ مسلمانوں کو جبراً سنکیانگ صوبے میں زیر حراست رکھا ہے جہاں انہیں زبردستی ریاست کے سیاسی نظریے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

جرمنی نے چین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سنگیانگ صوبے میں غیرقانونی حراستی مراکز بند کرے جبکہ آئی لینڈ اور جاپان نے سنگیانگ میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چین: سنکیانگ میں روزے رکھنے پر پابندی

اقوام متحدہ کے متعدد رکن ممالک نے چین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے مبصرین کو صوبے سنکیانگ کا دورہ کرنے کی اجازت دے۔

چینی وفد نے کہا کہ حراستی مراکز ’ری ایجوکیشن‘ کیمپ نہیں تھے بلکہ وہ تمام وکیشنل سینٹرز تھے جہاں لوگوں کو قانون، زبان اور پیشہ وارانہ صلاحیت پر مبنی فری ٹریننگ دی جارہی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں