حکومتی نمائندوں اور اپوزیشن کے درمیان قومی احتساب ادارے (نیب) کے احتساب کے عمل کو صاف و شفاف بنانے کے لیے بیورو کے قوانین میں نظر ثانی کی پیشکش پر مشاورتی اجلاس ہوا۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کے چیمبر میں ہونے والے اجلاس میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور سمیت اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بھی شرکت کی۔

شرکاء میں مسلم لیگ (ن) کے قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر سردار ایاز صادق، سابق ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی اور پنجاب کے سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ جبکہ پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر شامل تھے۔

مزید پڑھیں: نیب قوانین میں ترامیم کی جائیں گی، وفاقی کابینہ کا فیصلہ

اس اجلاس کے حوالے سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا تاہم ذرائع کے مطابق اپوزیشن کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس معاملے پر یہ دوسری ملاقات تھی۔

اپوزیشن کے اراکین نے دعویٰ کیا کہ معاملے پر بات چیت کا آغاز حکمراں جماعت تحریک انصاف کی جانب سے خود کیا گیا۔

اپوزیشن رکن نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’وزیروں نے بیوروکریٹس کو نیب سے ڈرے بغیر اپنے فرائض انجام دینے کا کہا ہے، نیب کی جانب سے سیاست دانوں کے خلاف حالیہ اقدامات کے باعث حکومت کو ملک میں سرمایہ کاری لانے میں مسائل کا سامنا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے دور میں بھی بیوروکریٹس کو نیب کے خوف سے کام کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: احتساب قوانین میں اصلاحات کی ٹاسک فورس کا اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا فیصلہ

واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے نیب پر ایک سال سے زائد عرصے سے یک طرفہ احتساب کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اپنے حریفوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے نیب کو قائم کیا تھا۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں 5 اکتوبر سے نیب کی حراست میں ہیں۔

شہباز شریف نے اسپیکر اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی اور نیب میں اتحاد ہے۔

حکومت نے الزامات کا جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کا نیب کی گرفتاریوں سے کوئی تعلق نہیں، نیب خود مختار ادارہ ہے۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی اپوزیشن جماعتوں سے نیب قوانین میں تبدیلی لانے کے لیے تجویز طلب کی تھیں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق کا کہنا تھا کہ ان کے درمیان ابھی صرف ابتدائی بات چیت ہوئی ہے، ہمارے درمیان اتفاق رائے ہے کہ ملک میں احتساب کے سخت قوانین ہونے چاہیے، اور کسی بھی کرپٹ شخص کو نہ چھوڑا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر چیزیں آگے بڑھتی ہیں تو اس کا اگلا مرحلہ پارلیمانی کمیٹی کا قیام ہے جس کے لیے مسلم لیگ (ن) نے پہلے ہی حکومت کو نامزدگیاں بھیج رکھی ہیں‘۔

واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان 2006 میں میثاق جمہوریت معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کا مقصد نیب کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک نیا ادارہ قومی احتساب کمیشن (این اے سی) کا قیام کرنا تھا۔

2009 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں حکومت کی جانب سے این اے سی کے قیام کے لیے بل پیش کیا گیا تھا تاہم حکومت اور اپوزیشن (ن لیگ) کے درمیان اس کے ڈرافٹ پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا تھا۔

اسی طرح مسلم لیگ (ن) نے بھی 2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد نیب کو این اے سی سے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم دونوں جماعتیں ناکام رہی تھیں۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 7 نومبر 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں