خاشقجی قتل: سعودی قونصل جنرل کے گھر سے تیزاب کے شواہد ملنے کا دعویٰ

08 نومبر 2018
سعودی  صحافی جمال خاشقجی — فوٹو : اے پی/فائل
سعودی صحافی جمال خاشقجی — فوٹو : اے پی/فائل

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی لاش سے متعلق ترک اٹارنی جنرل آفس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی قونصل جنرل کے گھر کے کنویں سے ہائیڈرو فلورک ایسڈ سمیت دیگر کیمیائی اجزا کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ سعودی قونصل جنرل محمد العُتیبی کی رہائش گاہ کے ایک کمرے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کی لاش کے ٹکڑوں کو تیزاب میں تحلیل کیا گیا تھا‘۔

ترک تفتیش کاروں نے جمال خاشقجی کے قتل کے دو ہفتے بعد قونصل جنرل کی رہائش گاہ کی تلاشی لی تھی۔

اس حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ ان دو ہفتوں کے دوران جمال خاشقجی کی لاش کا نام و نشان مٹانے کے لیے تیزاب کا استعمال کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: والد کی میت حوالے کی جائے، جنت البقیع میں تدفین چاہتے ہیں، بیٹے خاشقجی

واضح رہے کہ گزشتہ روز ایک ویڈیو کانفرنس کے دوران 'سی آئی اے' کے سابق ملازم ایڈورڈ اسنوڈن نے انکشاف کیا تھا کہ 'ایسا ممکن ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل میں اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ ٹیکنالوجیز کے سافٹ ویئر نے کردار ادا کیا ہو۔

انہوں نے بتایا کہ جمال خاشقجی کے ایک دوست عمر عبدالعزیز جلا وطنی کے بعد کینیڈا میں مقیم ہیں، ان کے فون میں این ایس او کا جاسوسی سافٹ ویئر 'پیگاسس' موجود تھا۔

ایڈورڈ اسنوڈن کا کہنا تھا کہ اس سافٹ ویئر کی مدد سے سعودی عرب کو عبدالعزیز کے ذریعے جمال خاشقجی سے متعلق معلومات جمع کرنے میں مدد ملی۔

انہوں نے کہا کہ ’سعودی یہ جانتے تھے کہ جمال خاشقجی قونصل خانے جارہے تھے کیونکہ انہیں بلایا گیا تھا، لیکن وہ ان کے منصوبے سے کیسے واقف تھے؟‘

یہ بھی پڑھیں: ’خاشقجی قتل کی تحقیقات میں محمد بن سلمان بے گناہ ثابت ہوں گے‘

خاشقجی کے قتل سے متعلق پختہ رائے کا اظہار آئندہ ہفتے کروں گا، ڈونلڈ ٹرمپ

گزشتہ روز ہی امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق مزید مضبوط رائے کا اظہار آئندہ ہفتے تک کریں گے۔

وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ وہ 2 اکتوبر کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں کیے گئے قتل کی گتھی سلجھانے کے لیے امریکی کانگریس، ترکی اور سعودی عرب سے رابطے میں ہیں۔

واضح رہے کہ دو روز قبل ترک سیکیورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ سی آئی اے ڈائریکٹر جینا ہیسپل نے جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق تمام شواہد کا جائزہ لیا ہے۔

ان شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ جمال خاشقجی کا قتل سعودی عرب کی اعلیٰ سطح کی قیادت کے احکامات پر کیا گیا تھا۔

ترک ذرائع نے یہ بھی بتایا سعودی عرب، جمال خاشقجی کے خاندان اور ان کی منگیتر کو خون بہا کی رقم بھی ادا کرے گا۔

اس سے قبل 5 نومبر کو جمال خاشقجی کے بیٹوں نے اپنے والد کے جسد خاکی کی حوالگی کے لیے اپیل کی تھی تاکہ ان کی آخری رسومات کی ادائیگی کی جاسکے۔

سی این این کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’اس حوالے سے ہم نے سعودی حکام سے بات کی ہے اور امید ہے کہ یہ معاملہ جلد ہوسکے گا‘۔

3 نومبر کو ترک صدر رجب طیب اردوان کے مشیر نے انکشاف کیا تھا کہ جمال خاشقجی کو قتل کرنے والوں نے ان کی لاش ٹھکانے لگانے کے لیے لاش کے ٹکڑے تیزاب میں تحلیل کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ قتل کرنے والوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ لاش کی 'باقیات کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے'۔

جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟

خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے۔

تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: جمال خاشقجی ’خطرناک شدت‘ پسند تھے، سعودی ولی عہد

تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔

بعد ازاں گزشتہ روز سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔

دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں