اسلام آباد: ججز کی تقرری کرنے والی پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس اطہر من اللہ کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ بنانے کی تجویز کی توثیق کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) نے یکم نومبر کو جسٹس اطہر من اللہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی تجویز دی تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ 27 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے کیونکہ موجودہ چیف جسٹس محمد انور خان کے عہدے کی مدت 28 نومبر کو پوری ہورہی ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس اطہر من اللہ کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ بنانے کیلئے اجلاس طلب

واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 175 اے کے تحت 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے جسٹس اطہر من اللہ کی تقرری کی توثیق کے لیے وزیر اعظم کو بھیجی جائے گی جو اسے صدر مملک کو ارسال کردیں گے۔

یاد رہے کہ جسٹس اطہر من اللہ جنوری 2011 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی دوبارہ بحالی کے بعد سے اب تک کے تیسرے چیف جسٹس ہوں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت میں قائم کیا گیا تھا اور سردار محمد اسلم یہاں کے پہلے چیف جسٹس تھے، جو بعد میں ترقی پا کر سپریم کورٹ کے جج بنے تھے۔

ان کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس محمد بلال خان اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنائے گئے تھے۔

خیال رہے کہ 31 جولائی 2009 کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اعلیٰ عدلیہ کے 100 ججز کو برطرف کردیا تھا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کو کالعدم قرار دیا تھا۔

تاہم بعد ازاں 18ویں آئینی ترمیم کے تحت اسے بحال کیا گیا اور اسلام آباد ہائیکورٹ ایکٹ 2010 کو نافذ کیا گیا، جو صوبے اور دیگر علاقوں سے ایک چیف جسٹس اور 6 ججز کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں تقرری کا اختیار دیتا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کی بحالی کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے ایک اور جج اقبال حمید الرحمٰن کو اسلام آباد ہائکورٹ کا چیف جسٹس تقرر کیا گیا، جو فروری 2013 میں ترقی پاکر سپریم کورٹ چلے گئے تھے، جس کے بعد جسٹس انور کانسی کو ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنایا گیا۔

یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی سے قبل ہائیکورٹ کی سنیارٹی فہرست میں جسٹس اطہر من اللہ تیسرے نمبر پر تھے۔

تاہم ملک کی سب سے اعلیٰ خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بارے میں متنازع بیان کے بعد گزشتہ ماہ شوکت عزیز صدیقی کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا، جس کے بعد جسٹس اطہر من اللہ سینئر جج بن گئے تھے۔

اگر جسٹس اطہر من اللہ کی بات کی جائے تو وہ نصرم من اللہ کے بڑے بیٹے ہیں، جو 60 اور 70 کی دہائی میں کمشنر رہے تھے، اس کے علاوہ جسٹس اطہر من اللہ جسٹس صفدر شاہ کے داماد بھی ہیں۔

واضح رہے کہ جسٹس صفدر شاہ اس بینچ کا حصہ تھے جنہوں نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی تھی، تاہم انہوں نے فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا، جس کی وجہ سے بعد میں انہیں سابق آمر ضیا اللہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس اطہر من اللہ کی گلالئی اسمٰعیل کی درخواست سننے سے معذرت

ابتدائی طور پر جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان کسٹم جوائن کیا اور وہاں اعلیٰ عہدے پر رہے لیکن بعد میں وہاں سے استعفیٰ دے کر قانون کی پریکٹس شروع کی۔

اس کے بعد وہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی کے وقت میں وکلاء تحریک میں شامل ہوئے اور عدلیہ کی بحالی کی جدو جہد کی۔

تاہم افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد انہوں نے ضرورت سے زیاد ازخود نوٹس لینے پر عدلیہ کی مخالفت کی اور موقف اپنایا کہ اس طرح معمول کے مقدمات میں التوا ہوتا ہے۔

بعد ازاں جون 2014 میں جسٹس اطہر من اللہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج تقرر ہوئے اور وہ اعلیٰ عدلیہ میں بہترین ججوں میں سے ایک تصور کیے جاتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں