بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم سیو دی چلڈرن کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 1950 کے بعد سے دنیا بھر میں مجموعی طور پر اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت (فرٹیلیٹی یا تولیدی صلاحیت) کم ہوکر آدھی رہ گئی ہے لیکن اس کے باوجود آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

مذکورہ تحقیق میں 172 ممالک کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک خاتون کی زندگی میں بچوں کی تعداد اوسطاً 2.4 ہوگئی ہے جو 1950میں 4.7 فی خاتون تھی۔

دوسری جانب عالمی آبادی سال 1950 میں 2.6 ارب تھی جو اب 3 گنا اضافے کے بعد 7.6 ارب ہوچکی ہے، جس میں 1985 سے لے کر اب تک اوسطاً ہر سال 8 کروڑ 40 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ضربِ تولید کی ضرورت ہے

رپورٹ مرتب کرنے والے محقق اور واشنگٹن یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلوایشن کے ڈائریکٹر ’ڈاکٹر کرسٹوفر مورے‘ کا کہنا تھا کہ باوجود اس کے کہ اب خواتین زیادہ تعلیم یافتہ اور متحرک ہیں اور ان کو صحت کی بہتر سہولیات میسر ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر تولیدی صلاحیت میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔

رپورٹ میں اس کی وجوہات میں جن چیزوں کا تذکرہ کیا گیا اس میں نومولود بچوں کی شرح اموات میں کمی اور دیر سے شادی ہونا شامل ہیں۔

اس ضمن میں عالمی ادارہ صحت کے شعبہ انسانی تولید اور تحقیق کے معاون ’ڈاکٹر جیمز کیاری‘ کا کہنا تھا کہ ’خواتین کی شادی کرنے کی عمر میں اضافہ ہورہا ہے‘ جبکہ شادی ہی دنیا بھر میں شرح پیدائش کا بنیادی محرک ہے۔

مزید پڑھیں: دنیا کی آبادی 7 ارب 40 کروڑ سے تجاوز

رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق جہاں دنیا کے 195 ممالک میں شرح تولید میں کمی آئی وہیں ایک نسل کے دوسری نسل کی جگہ لینے کی شرح ایک جانب زیادہ اور ایک جانب کم ہو کر بالکل 2 حصوں میں بٹ گئی ہے۔

مثال کے طور پر سال 2017 میں سائپرس میں تولیدی صلاحیت کی شرح سب سے کم یعنی فی خاتون ایک بچے کی اوسط تھی وہیں نائجیریا میں یہ اوسط فی خاتون 7 بچے تھی، اس طرح شرح پیدائش کے حوالے سے دنیا 2 حصوں میں تقسیم ہے۔

اس سلسلے میں کم شرح پیدائش والے ممالک خاندان کے لیے مالی فوائد اور والدین کو چھٹیاں دینے جیسے مواقع فراہم کرتے ہیں اس کے باوجود اس کے اثرات نہایت کم ہیں جس کے نتیجے میں یورپ کے 33 ممالک میں 2010 سے اب تک آبادی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 2050 میں سب سے زیادہ آبادی والے 10 شہر

اس حوالے سے سب سے زیادہ فکر، چین میں پائی جاتی ہے جہاں کام کرنے والے افراد کی تعداد گھٹنا شروع ہوچکی ہے جس کا سب پہلا اثر معاشی نمو کی صلاحیت پر پڑے گا۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے عالمی آبادی میں کمی آنے کا امکان ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق 2050 تک دنیا کی آبادی بڑھ کر 9.8 ارب ہوجائے گی، جس میں زیادہ تر اضافہ افریقہ میں ہونے کی توقع ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں